جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن روند ڈالنے میں بھاجپا کی مدد کرنے والے کو مسترد کرنا ضروری: عمر عبداللہ
جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اتوار کے روز کہا کہ کبھی بھی اقتدار کو اپنی منزل نہیں سمجھا اور ہم نے بار بار یہ ثابت کرکے دکھایا ہے کہ ہمیں اقتدار کا لالچ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگر چاہتے ہیں تو یہاں کے لوگوں کی عزت ، بقا اور وقار چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ’ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کے نوجوان عزت کی روزی روٹی کمائیں،ہم چاہتے ہیں اگر ایک عام آدمی کسی سرکاری دفتر میں جائے تو کم از کم وہاں اُس کی سنوائی ہو، ہم چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر کو اپنا کھو یاہو احق واپس حاصل ہو ، ہم اور کچھ نہیں چاہتے ہیں۔‘ ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اننت ناگ میں چناوی جلسوں سے خطاب کے دوران کیا۔
پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ محبوبہ مفتی ہر تقریر میں کہتی ہے کہ نیشنل کانفرنس والے خود غرض ہیں، لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی ذہمت گوارا نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا بلاک کا قیام صرف اس مقصد کیلئے وجود میں آیا کہ فرقہ پرست طاقتوں خصوصاً بی جے پی کا مقابلہ کیا جائے، اُس وقت سیٹیں نہیں دیکھیں گئیں اور اپنا فائدہ نہیں دیکھا گیا، ہم بھی جموں وکشمیر کا فائدہ دیکھنا چاہتے تھے، لیکن بدقسمتی سے آج اننت ناگ راجوری نشست پر نیشنل کانفرنس کے سامنے انڈیا بلاک کا دوسرا ممبر مقابلے میں آگیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے اوپر الزام لگایا جاتا ہے کہ نیشنل کانفرنس والے خود غرض ہیں، ہر تقریر میں محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ نیشنل کانفرنس والے خودغرض ہیں کیونکہ ہم نے یہی کہا کہ جو تین سیٹیں نیشنل کانفرنس پہلے ہی جیت چکی ہے یہاں پر اُمیدوار ہمارے ہونے چاہئیں، اب اگر ہم خودغرض ہیں تو کیا کانگریس والے بھی خود غرض ہیں وہ بھی تو اس نشست پر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، کیا تاریگامی صاحب بھی خود غرض ہیں جنہوں نے میاں الطاف احمد کو حمایت دینے کا اعلان کیا ہے؟خود غرض وہ لوگ ہیں جو انڈیا الائنس کے ساتھ محض اس لئے جڑے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح سیٹ حاصل ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرگل کے ہل کونسل انتخابات میں نیشنل کانفرنس سب سے بڑی جماعت اُبھر کر سامنے آئی اور اس وقت چیئرمین بھی نیشنل کانفرنس کا ہے اور اگرہم خود غرض ہوتے تو ہم نے وہاں اپنا اُمیدوار کھڑا کیا ہوتا۔ہم اس سیٹ سے محض اس لئے دستبردار ہوئے تاکہ جن لوگوں نے فرقہ پرستی کا زہر پھیلا یا ہے اُن کیخلاف مقابلہ کیا جاسکے۔ جنہوں نے جموں وکشمیر کو تہس نہس کیا، جنہوں نے اس تاریخی ریاست کا بٹوارا کیا، جنہوں نے ہماری پہچان، شناخت اور انفرادیت کو زک پہنچائی اُن کا ہرایا جائے۔اس مقصد کی خاطر ہم نہ صرف کرگل، بلکہ جموں اور ادھمپور کی سیٹوں سے بھی دستبردار ہوگئے، ہم نے تین سیٹیں اتحاد کیلئے چھوڑیں اب اس میں کون سی خود غرضی ہے؟
عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ” آپ بہانے مت بنایئے، اگر ہم خود غرض ہیں تو یہاں کے لوگوں کو بتائے کہ کیا نیشنل کانفرنس نے 2015میں بی جے پی کو باہر رکھنے کیلئے پی ڈی پی کو دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا تھا؟کیا آپ اس حقیقت کو جھٹلا سکتی ہیں کہ ہم نے پی ڈی پی کوحکومت بنانے کیلئے غیر مشروط پیشکش کی تھی؟ہمارا مقصد یہی تھا کہ بھاجپا کو کسی نہ کسی طرح جموں و کشمیر سے باہر رکھا جائے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ہم نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہمیں وزارت، راجیہ سبھا سیٹ، ایم ایل سی، چیئرمین شپ وغیرہ کچھ نہیں چاہئے ، بس فرقہ پرست طاقتوں کو جموںوکشمیر کے اندر مت لائے لیکن اُس وقت قلم دوات والوں نے ہماری اس پیشکش کو ٹھکرایا اور آج یہی لوگ ہم سے سیٹ مانگ رہے ہیں، اُس وقت بھاجپا کیخلاف ہم سے مدد کیوں نہیں لی؟ اُس وقت تو آپ نے ہمیں طعنے دیئے ۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ آپ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس والے اقتدار کے بوکھے ہیں یہ پچھلے دروازے سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ ”اتنا ہی نہیں بلکہ 2016میں جب مفتی محمد سعید کا انتقال ہوا اور محبوبہ مفتی نے دوبارہ حکومت بنانے میں دیر لگا دی ، اُس وقت کہا گیا کہ پی ڈی پی ٹوٹ جائیگی ہم نے اُس وقت گورنر صاحب سے جاکر کہا کہ جماعتوں کو توڑنے والوں کوموقعے مت دیجئے۔
ان کے مطابق نیشنل کانفرنس کسی جوڑ توڑ میں یقین نہیں رکھتی محبوبہ مفتی کو جتنا وقت چاہئے اُتنا دیجئے۔ ہم نے اُس وقت حکومت بنانے کا دعویٰ کرکے پی ڈی پی کو توڑنے کا کام نہیں کیا۔ اگر میں اُس وقت راج بھون جاکر حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کرتا تو پی ڈی پی جماعت نہیں بچتی، لیکن ہم نےایسانہیں کیا۔ کیا یہ ہماری خود غرضی تھی؟ اس کے بعد 2018میں محبوبہ مفتی نے اسی الطاف بخاری کو ہمارے پاس بھیجا اُس وقت بھی نیشنل کانفرنس نے تحریری خط کے ذریعے گورنر صاحب کو کہا کہ ہم پی ڈی پی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں ، اگر ہم خود غرض ہوتے تو کیا ہم پی ڈی پی کو پھر ایک بار حمایت دینے کا اعلان کرتے۔
ہم یہ سب کچھ جموں وکشمیر کو بھاجپا کی سازشوں سے بچانے کیلئے کررہے تھے۔ آخر کار وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا اور ہم نے لوگوں کو 2014کے انتخابی مہم کے دوران سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ بھاجپا یہاں کے اقتدار میں داخل ہوئی اور دفعہ370اور 35اے کا خاتمہ کرگئی۔ اب یہ یہاں کے عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس جماعت نے خودغرضی دکھائی اور کس جماعت نے اس تاریخی ریاست کی خصوصی پوزیشن کو روند ڈالنے میں بھاجپا کی مدد و اعانت کی۔