ایران کی نئی مغربی پابندیوں کے خلاف کارروائی کی دھمکی
تہران 16 ستمبر (ایجنسی) ویب ڈیسک — ایران نے اپنا ریسرچ سیٹیلائٹ ہفتے کو خلا میں روانہ کیا ہے جس کے سگنلز زمین پر موصول ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ‘ارنا کے مطابق 60 کلو گرام وزنی ‘چمران ون سیٹیلاٹ کو ہفتے کو خلا میں روانہ کیا گیا جو کامیابی سے 550 کلومیٹر دور خلا کے مدار میں پہنچ گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ریسرچ سیٹیلائٹ کو پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے مقامی سطح پر بنائے گئے راکٹ ‘قائم 100’ کی مدد سے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ارنا کی رپورٹ کے مطابق سیٹیلائٹ سے زمین پر سگنل موصول ہوئے ہیں۔اس سے قبل رواں برس جنوری میں ایران نے کہا تھا کہ اس نے کامیابی کے ساتھ تین سیٹیلائٹ خلا میں بھیجے ہیں۔ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کے اقتدار میں آںے کے بعد تہران نے یہ پہلا سیٹیلائٹ خلا میں روانہ کیا ہے جس کا مقصد بلندی پر ہارڈویئر اور سافٹ ویئر سسٹم کی ٹیسٹنگ ہے۔ایران نے مغربی پابندیوں کے باوجود گزشتہ کئی برسوں کے دوران اپنا اسپیس پروگرام تخلیق کیا ہے جب کہ تہران کے سیٹیلائٹ پروگرام کو مغرب بیسلٹک میزائل کی ٹیکنالوجی میں بہتری کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ایران نے ایسے موقع پر سیٹیلائٹ خلا میں روانہ کیا ہے جب اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف کارروائیوں میں شدت کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے اور علاقائی جنگ پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔امریکہ اس سے قبل کہہ چکا ہے کہ ایران کی جانب سے سیٹیلائٹ لانچنگ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے خلاف ہے۔ واشنگٹن نے تہران پر زور دیا تھا کہ وہ بیلسٹک میزائل کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت حاصل کرنے سے باز رہے۔ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر اقوامِ متحدہ کی عائد کردہ پابندیاں گزشتہ برس اکتوبر میں ہی ختم ہو گئی تھیں۔ایران نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے اس کے خلاف لگائی جانے والی نئی پابندیوں کا جواب دے گا۔ان تین یورپی ملکوں کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے روس کو مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کرنے کے باعث پابندیاں لگائی ہیں۔ روس ان میزائلوں کو یوکرین کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے منگل کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تین یورپی ممالک کا یہ اقدام مغرب کی دشمنی پر مبنی پالیسی اور ایرانی عوام کے خلاف اقتصادی دہشت گردی کا تسلسل ہے، جسے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مناسب اور متناسب کارروائی کا سامنا کرنے پڑے گا۔ان تینوں ملکوں نے پابندیوں کے حوالے سے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ایئر سروسز کے معاہدوں کی منسوخی کے لیے کارروائی کریں گے اور ایران پر فضائی پابندیاں نافذ کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے۔ان ملکوں کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور روس کو بیلسٹک میزائلوں اور دیگر ہتھیاروں کی منتقلی سے منسلک اہم اداروں اور افراد کے خلاف بھی اقدامات کریں گے۔ایران نے ایک بار پھر یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کو کسی بھی قسم کے ہتھیار فراہم کے کے الزام کی تردید کی ہے۔کنعانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے روسی فیڈریشن کو بیلسٹک میزائل فروخت کرنے کا کوئی بھی دعویٰ سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اسی طرح کے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایران نے روس کو بیلسٹک میزائل فراہم نہیں کیے ہیں‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’ایک بار پھر، امریکہ اور تین یورپی حکومتوں نے ناقص انٹیلیجینس اور ناقص منطق کی بنیاد پر یہ کارروائی کی ہے‘۔ان کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پابندیاں حل نہیں بلکہ مسئلے کا ایک حصہ ہیں۔
امریکہ نےبھی ایران پر روس کو میزائل فراہم کرنے پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ایران پر ان پابندیوں کا اعلان امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے منگل کو کیا۔بلنکن کا کہنا تھا کہ روس کی یوکرین میں غیر قانونی در اندازی کے دوران ایران کے میزائلوں کا استعمال روکنے کے لیے واشنگٹن نے یہ پابندی عائد کی ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران کی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں میں ایران اور روس میں انفرادی طور پر شخصیات اور اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں ایرانی فضائی کمپنی ایران ایئر بھی شامل ہے۔امریکہ کا الزام ہے کہ ایران کی ایئر لائن ہتھیاروں کی منتقلی میں ملوث ہے۔پینٹاگان کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے تصدیق کی ہے کہ ایران نے مختصر فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے ’فتح 360‘ میزائل روس کو منتقل کیے ہیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میزائلوں کو آنے والے ہفتوں میں یوکرین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔پینٹاگان کے ترجمان کے بقول میزائلوں کی ترسیل سے قبل روس کے فوجی اہلکاروں کو ایران میں اس کے استعمال کی تربیت بھی دی گئی ہے۔سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے کہا تھا کہ مختصر فاصلے تک ہدف کو نشانہ بننے والے میزائلوں کی ترسیل خدشات سے بھر پور پیش رفت ہے کیوں کہ ان میزائلوں کی فراہمی سے روس کے عسکری ہتھیاروں میں اضافہ ہوا ہے۔واضح رہے کہ ایران کے ’فتح 360 میزائل‘ لگ بھگ 120 کلومیٹر کی حدود میں ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔