واشنگٹن،03اگست(ہ س)۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی برائے شرقِ اوسط نے ہفتے کے روز اسیر اسرائیلیوں کے خاندانوں کو بتایا کہ وہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ مل کر ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس سے غزہ جنگ مؤثر طریقے سے ختم ہو جائے گی۔ٹرمپ نے تنازعات کے خاتمے کو اپنی انتظامیہ کی ایک بڑی ترجیح بنایا ہے حالانکہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ چونکہ اسرائیلی حکومت کو انکلیو میں بگڑتے ہوئے انسانی حالات پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے تو سٹیو وٹکوف اسرائیل کے دورے پر ہیں۔رائٹرز کی جائزہ شدہ میٹنگ کی ایک ریکارڈنگ میں وِٹکوف کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا: “ہمارے پاس ایک نہایت اچھا منصوبہ ہے جس پر ہم اسرائیلی حکومت اور وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کا مؤثر طور پر مطلب جنگ کا خاتمہ ہے۔”وٹکوف نے یہ بھی کہا کہ حماس جنگ ختم کرنے کے لیے غیر مسلح ہونے کے لیے تیار ہے حالانکہ گروپ نے بارہا کہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔اس کے جواب میں حماس نے کہا کہ وہ اس وقت تک “مسلح مزاحمت” سے دستبردار نہیں ہو گا جب تک کہ ایک “آزاد، مکمل خودمختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت یروشلم ہو” قائم نہ ہو جائے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات گذشتہ ہفتے تعطل کا شکار ہو گئے جن کا مقصد غزہ جنگ میں 60 روزہ جنگ بندی کو یقینی بنانا اور نصف مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے کرنا تھا۔ہفتے کے روز حماس نے اسرائیلی قیدی ایویاتر ڈیوڈ کی دو دنوں میں دوسری ویڈیو جاری کی۔ اس میں ڈھانچے جیسا لاغر ڈیوڈ ایک گڑھا کھودتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس کے بارے میں اس نے ویڈیو میں کہا، یہ اس کی قبر کے لیے ہے۔”وہ بالکل موت کے دہانے پر ہیں،” ڈیوڈ کے بھائی ایلے نے تل ابیب میں قیدیوں کی حمایت میں ایک ریلی میں کہا جہاں ہزاروں افراد قیدیوں کے پوسٹر لیے جمع ہوئے اور ان کی فوری رہائی کے لیے نعرے لگائے۔انہوں نے مزید کہا، “موجودہ ناقابل تصور حالت میں ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے شاید چند ہی دن باقی ہیں۔”اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈون سار نے کہا، “دنیا ان مشکل تصاویر کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتی جو قیدیوں سے دانستہ کی گئی افسوسناک بدسلوکی کا نتیجہ ہیں جس میں بھوک بھی شامل ہے۔”وِٹکوف نے جمعرات کو وزیرِ اعظم سے ملاقات کی۔ بنجم نیتن یاہو کی حکومت کو غزہ میں ہونے والی تباہی اور اس کے 2.2 ملین لوگوں میں بڑھتی ہوئی فاقہ کشی پر عالمی سطح پر احتجاج کا سامنا ہے ۔
اور اسی کے دوران وہ اسرائیل پہنچے ہیں۔
اس کے بعد ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے کہا، اسرائیل اور واشنگٹن کے درمیان ایک یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ چند قیدیوں کی بجائے تمام کی رہائی، حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کی پٹی کو غیر فوجی بنانے کے منصوبے کی طرف منتقلی کی ضرورت ہے جو جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کے اہم مطالبات ہیں۔منگل کے روز قطر اور مصر نے فرانس اور سعودی عرب کے اس اعلان کی توثیق کی جس میں اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کے لیے اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا۔ اس کے ایک حصے کے طور پر انہوں نے کہا کہ حماس کو اپنے ہتھیار مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دینے چاہئیں۔غزہ کے بحران نے مغربی طاقتوں کو یہ اعلان کرنے پر بھی آمادہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتے ہیں۔جمعہ کے روز وٹکوف نے جنوبی غزہ میں امریکی حمایت یافتہ امدادی کارروائیوں کا دورہ کیا اور کہا کہ انہوں نے وہاں کے لوگوں کو خوراک اور دیگر امداد پہنچانے کی کوشش کی۔
