نئےٹیرف اقدامات سے قیمتوں میں اضافہ اورامریکی صارفین اور کاروباری اداروں کو نقصان کا اندیشہ
واشنگٹن، 9 اپریل (یو این آئی) امریکہ کے سابق وزیر خزانہ لارنس سمرز نے کہا ہے کہ امریکہ کساد بازاری کی طرف بڑھ رہا ہے، ٹیرف میں اضافے کے نتیجے میں 20 لاکھ امریکیوں کے ملازمت سے ہاتھ دھونے کا خدشہ ہے۔مسٹر سمرز نے بلومبرگ ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا “اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ہم کساد بازاری میں جانے والے ہیں اور کساد بازاری کے تناظر میں ہم مزید 2 ملین افراد کو بے روزگار ہوتے دیکھیں گے۔ “ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سمرز نے کہا کہ “ہم فی خاندان $5,000 یا اس سے زیادہ کی گھریلو آمدنی میں کمی دیکھیں گے۔ “مسٹر سمرز نے دلیل دی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ٹیرف کے منصوبے 1930 کی دہائی سے زیادہ ہیں جس نے “بڑے پیمانے پر کساد بازاری پیدا کی” اور کہا کہ “اعلان کردہ پالیسیوں سے پیچھے ہٹنا دانشمندی ہوگی۔”مسٹر سمرز اور دیگر ماہرین اقتصادیات کے انتباہات کے باوجود، وائٹ ہاؤس نے منگل کو اشارہ دیا کہ پالیسیاں منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھیں گی۔وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ “صدر سے کل یہ دریافت کیا گیا تھا اور انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ توسیع یا تاخیر پر غور نہیں کر رہے ہیں۔ میں نے اس بریفنگ سے پہلے ان سے بات کی تھی۔ ان کی سوچ ایسی نہیں ہے۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ یہ ٹیرف نافذ ہونے والے ہیں۔”امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 2 اپریل کو نام نہاد “باہمی ٹیرف” کے حوالے سے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس میں اعلان کیا گیا کہ امریکہ تجارتی ساجھیداروں پر 10 فیصد “بیس لائن ٹیرف” اور بعض ساجھیداروں پر زیادہ ٹیرف نافذ کرے گا، جن میں سے کچھ 30 فیصد اور یہاں تک کہ 40 فیصد تک پہنچ سکتے ہیں۔دس فیصد “بیس لائن ٹیرف” کا اطلاق 05 اپریل سے ہوا، اور بعض تجارتی ساجھیداروں پر اعلیٰ ٹیرف بدھ، 9 اپریل سے نافذ العمل ہیں۔اگرچہ مسٹر ٹرمپ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ ٹیرف میں اضافے سے امریکی حکومت کے لیے محصول پیدا کرنے، تجارتی خسارے کو کم کرنے اور امریکی مینوفیکچرنگ کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ ماہرین اقتصادیات اور کاروباری رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ یہ ٹیرف اقدامات قیمتوں میں اضافہ، امریکی صارفین اور کاروباری اداروں کو نقصان، عالمی تجارت میں خلل ڈالیں گے اور عالمی اقتصادی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔کئی امریکی تجارتی ساجھیدار پہلے ہی جوابی اقدامات کا اعلان کر چکے ہیں۔
آج سے چین پر محصولات کم از کم 104 فی صد تک بڑھ جائیں گے
وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج بدھ کو چین سے تمام درآمدات پر 104 فی صد ٹیکس عائد کرنے کیلئے تیار ہیں۔تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس ترجمان نے بتایا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے چین پر عائد کیے گئے مزید 50 فی صد ڈیوٹی پر آج سے عمل درآمد ہوگا، کیوں کہ گزشتہ روز صدر ٹرمپ کی جانب سے دی گئی دھمکی کے باوجود چین نے امریکہ پر عائد 34 فی صد ڈیوٹی واپس نہیں لی۔امریکی میڈیا کے مطابق چین پر پہلے ہی ٹرمپ کے ’’باہمی‘‘ ٹیرف پیکج کے ایک حصے کے طور پر بدھ کو ٹیرف میں 34 فیصد اضافہ ہونے والا تھا، تاہم بیجنگ نے منگل کی دوپہر تک امریکی اشیا پر 34 فی صد جوابی محصولات عائد کرنے کے اپنے وعدے سے پیچھے نہ ہٹنے کے بعد، صدر ٹرمپ نے مزید 50 فیصد کا حکم جاری کر دیا، جس سے ڈیوٹیوں میں مزید 84 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔منگل کو چین کی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا کہ وہ چینی درآمدات پر اضافی 50 فی صد محصولات کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اور اسے ’’غلطی پر غلطی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ چینی وزارت نے بھی امریکی برآمدات پر اپنا جوابی ٹیرف بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔پریس سیکریٹری لیویٹ نے منگل کو صحافیوں سے کہا ’’چین جیسے ممالک، جنھوں نے امریکہ کے خلاف جوابی ٹیرف دوگنا کرنے کی کوشش کی ہے، غلطی کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ کے پاس فولاد کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اور وہ نہیں ٹوٹیں گے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’’چینی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں معلوم نہیں کہ معاہدہ کیسے کریں۔‘‘ ترجمان نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ ٹرمپ چین پر ٹیرف کم کرنے کے لیے (اگر کوئی ہیں تو) کن شرائط پر غور کریں گے۔واضح رہے کہ چین گزشتہ سال امریکہ کی درآمدات کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ تھا، جس نے کل 439 بلین ڈالر مالیت کی اشیا امریکا کو بھیجی تھیں، جب کہ امریکہ نے چین کو 144 بلین ڈالر مالیت کا سامان برآمد کیا تھا۔
