نیو یارک 20 دسمبر (ایجنسی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز وسطی شام میں دو امریکی فوجیوں اور ایک غیر فوجی مترجم کی ہلاکت کے بعد “انتہائی سنگین جوابی کارروائی” کا عہد کیا۔ داعش کے ایک مبینہ رکن کی امریکہ اور شام کے مشترکہ گشت پر فائرنگ کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے “انتہائی سنگین انتقامی کارروائی” کا عزم کرتے ہوئے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر کہا”ہم شام میں تین عظیم امریکی محب وطن جانوں کے ضیاع پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں”۔پینٹاگون کے ترجمان شان پارنیل نے کہا کہ یہ حملہ تدمر میں ہوا جو یونیسکو کے آثارِ قدیمہ کی فہرست میں شامل مقام ہے اور کبھی شام میں اپنی علاقائی توسیع کے عروج کے دوران داعش گروپ کے زیرِ قبضہ تھا۔امریکی مرکزی کمان (سینٹ کام) نے ایکس پر کہا کہ یہ مہلک حملہ “داعش کے ایک تنہا مسلح شخص نے گھات لگا کر” کیا تھا جو “جوابی فائرنگ میں ہلاک ہو گیا”۔ٹرمپ نے اسے “امریکہ اور شام کے خلاف داعش کا حملہ قرار دیا جو شام کے ایک انتہائی خطرناک حصے میں ہوا جس پر ان کا مکمل کنٹرول نہیں ہے۔”پارنیل نے کہا کہ جب حملہ ہوا تو فوجی انسدادِ دہشت گردی کی حمایت میں “ایک کلیدی رہنما کے خلاف کارروائی” کر رہے تھے جبکہ شام کے لیے امریکی ایلچی ٹام براک نے کہا کہ گھات لگا کر کیے گئے حملے میں “امریکی شامی حکومت کے مشترکہ گشت” کو نشانہ بنایا گیا۔گذشتہ سال دسمبر میں شام کے دیرینہ حکمران بشار الاسد کی معزولی اور ملک کے امریکہ سے تعلقات کی بحالی کے بعد یہ اپنی نوعیت کا اولین واقعہ ہے۔ٹرمپ نے کہا کہ شام کے نئے صدر احمد الشرع جنہوں نے گذشتہ ماہ وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا، “اس حملے سے انتہائی غصے میں اور پریشان تھے۔”شام کے وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، دمشق “اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتا ہے جس نے تدمر کے قریب شام اور امریکہ کے مشترکہ گشت برائے انسدادِ دہشت گردی کو نشانہ بنایا”۔نیز کہا، “ہم متأثرین کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت اور لوگوں سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔”ایک شامی فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تدمر میں ایک شامی مرکز پر “شامی اور امریکی افسران کے درمیان میٹنگ کے دوران” یہ گولیاں چلائی گئیں۔ایک گواہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس نے بیس کے اندر سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنی۔تاہم پینٹاگون کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ “ایک ایسے علاقے میں ہوا جہاں شامی صدر کا کنٹرول نہیں ہے۔”تین مقامی اہلکاروں نے رائٹرز کو بتایا کہ حملہ آور شامی سکیورٹی فورسز کا رکن تھا۔ شام کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے ایک سرکاری ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ اس شخص کا سکیورٹی فورسز میں قائدانہ کردار نہیں تھا۔ترجمان نورالدین البابا نے شام کے ٹیلی ویژن چینل الاخباریہ کو بتایا، “10 دسمبر کو جاری کردہ ایک جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ آور شدت پسندانہ خیالات رکھتا تھا اور اس کے بارے میں فیصلہ اتوار کو جاری ہونا ہے۔”انہوں نے کہا کہ شام اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا حملہ آور کا تعلق داعش سے تھا یا وہ محض اس کے نظریئے پر یقین رکھتا تھا۔البابا نے یہ بھی کہا کہ “داخلی سکیورٹی کمانڈ نے صحرائی علاقے میں اتحادی افواج کو داعش کی ممکنہ دراندازی” کے بارے میں پیشگی وارننگ دی تھی۔انہوں نے کہا، “بین الاقوامی اتحادی افواج نے داعش کی ممکنہ دراندازی کے بارے میں شامی انتباہات پر غور نہیں کیا۔”سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس مانیٹر کے مطابق یہ ملاقات “شام کے صحرا میں اپنی موجودگی اور قدم جمانے کی امریکی حکمتِ عملی” کا حصہ تھی۔سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے اطلاع دی ہے کہ ہیلی کاپٹروں نے زخمیوں کو جنوبی شام کے التنف مرکز تک پہنچایا جہاں داعش گروپ کے خلاف واشنگٹن کی زیرِ قیادت عالمی اتحاد کے امریکی فوجی تعینات ہیں۔گذشتہ مہینے الشرع کے واشنگٹن کے تاریخی دورے کے دوران دمشق نے اتحاد میں باضابطہ شمولیت اختیار کی۔داعش کے دہشت گردوں کی خطے میں موجودگی ہنوز برقرار ہے تاہم یہ بالخصوص شام کے وسیع صحرا میں ہے۔امریکی افواج شام میں کردوں کے زیرِ قبضہ شمال مشرق کے ساتھ ساتھ اردن کی سرحد کے قریب التنف میں تعینات ہیں۔
شام میں داعش کے مبینہ حملے میں ہلاک فوجیوں کا انتقام لیں گے: ٹرمپ
مقالات ذات صلة
