ٹرمپ کے نائب اسرائیل میں غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر تبادلہ خیال کریں گے
تل ابیب 21 اکتو بر(ایجنسی) مشرق وسطی اس وقت امریکی سرگرمیوں کے ایک بڑے سلسلے کا مشاہدہ کر رہا ہے، جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو کامیاب بنانا اور کسی بھی ایسے اقدام کو روکنا ہے جو اس کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہو۔ اسی سلسلے میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے آج (منگل) اسرائیل پہنچنے کی توقع ہے۔امید کی جا رہی ہے کہ وینس کے مذاکرات کا محور غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر ہوگا، جہاں ان کی ملاقات اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو سے طے ہے۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق نائب صدر کو غزہ کا دورہ بھی کرنا تھا، تاہم سکیورٹی خدشات کے باعث اب یہ ممکن نہیں ہو گا۔اس کے بجائے وینس غزہ کی صورتِ حال کو اسرائیلی وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر میں نصب خصوصی اسکرینوں پر ڈرون کے ذریعے حاصل ہونے والی براہِ راست وڈیوز سے ملاحظہ کریں گے۔ یہ بات “اسرائیل ہیوم” ویب سائٹ نے بتائی۔ وینس کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دو دیگر امریکی عہدے دار بھی اسرائیل میں موجود ہیں۔ وہ ہیں مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر.ان دونوں نے گزشتہ روز (پیر کو) نیتن یاہو سے ملاقات کی۔اسرائیلی “ چینل 12” کے مطابق، وِٹکوف اور کُشنر نے نیتن یاہو کو غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو خطرے میں ڈالنے سے سختی سے خبردار کیا۔رپورٹ کے مطابق، پیغام واضح اور دوٹوک تھا:“اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے، مگر اسے اس معاہدے کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔”امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ اور دونوں ایلچیوں میں اس معاہدے کے ٹوٹنے کے خدشے پر بڑھتی ہوئی تشویش پائی جا رہی ہے۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق، ایک سینئر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ کُشنر اور وِٹکوف نے تسلیم کیا ہے کہ وہ جنگ بندی جس پر انھوں نے مذاکرات کیے تھے، ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہے۔اسی پس منظر میں، امریکی حکام کے مطابق جے ڈی وینس، وِٹکوف اور کُشنر کو ایک ہی بنیادی مشن سونپا گیا ہے:“نیتن یاہو کو حماس پر دوبارہ مکمل حملہ شروع کرنے سے روکنا۔”ان حکام نے مزید بتایا کہ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ حماس کی قیادت مخلصانہ انداز میں مذاکرات جاری رکھنے پر آمادہ ہے، اور اسرائیلی فوجیوں پر حالیہ حملہ حماس کے کسی ‘حاشیائی گروہ’ کی کارروائی تھی۔دوسری جانب، صدر ٹرمپ نے یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ اگر حماس نے غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو وہ اس تنظیم کو “مکمل طور پر ختم کر دیں گے”۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے اسرائیل سے دوبارہ لڑائی شروع کرنے کی درخواست نہیں کی۔ادھر قاہرہ میں موجود حماس کے وفد کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا کہ تنظیم غزہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے، اور وہ تمام اسرائیلی لاشیں معاہدے کے مطابق واپس کرے گی، اگرچہ یہ کام آلات کی کمی کی وجہ سے مشکل ہے ۔انھوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی سرپرستی میں موجود بین الاقوامی عزم ہی اس امن معاہدے کی ضمانت ہے۔ اس دوران، “العربیہ” اور “الحدث” کے سوال کے جواب میں، حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ حماس کی قیادت یا کسی ذیلی تنظیم کو رفح کی کارروائی کے بارے میں کوئی علم نہیں، اور ان کا ان گروہوں سے کوئی رابطہ نہیں۔تاہم، فلسطینی سیکیورٹی فورسز کے ترجمان انوَر رجب نے کہا کہ حماس کے اندر کچھ گروہ ایسے ہیں جو تنظیم کے جنگ بندی کے فیصلے پر عمل نہیں کر رہے۔ان کے بقول، حماس موجودہ مرحلے کو طول دینا چاہتی ہے تاکہ غزہ میں اپنا کنٹرول دوبارہ مضبوط کر سکے۔مزید یہ کہ امریکا کے تقریباً 200 فوجی اسرائیل پہنچ چکے ہیں، تاکہ وہاں ایک مشترکہ شہری و عسکری رابطہ مرکز (Civil-Military Coordination Center) قائم کیا جا سکے۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، اس مرکز کا مقصد غزہ میں جنگ بندی پر نگرانی رکھنا اور انسانی امداد کی ترسیل کو آسان بنانا ہے۔اخبار کے مطابق، امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے سربراہ اس مرکز کے قیام کی نگرانی کریں گے، جو ڈرونز اور بین الاقوامی تنظیموں سمیت مختلف ذرائع سے غزہ کی زمینی صورتِ حال کے بارے میں تازہ معلومات حاصل کرے گا۔
