اجتماعی قتل و تشدد کی نئی رپورٹس منظر عام پر: فرار کی کوشش کرنے والے 500 شہریوں اور اہلکاروں کا قتل
خرطوم، 2 نومبر (یو این آئی) سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے افراد نے لرزہ خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نیم فوجی دستوں نے شہر پر قبضے کے بعد خاندانوں کو الگ کر کے بچوں کو ان کے والدین کے سامنے قتل کیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمنی کے اعلیٰ سفارتکار جوہان ویڈیفل نے اس صورتحال کو “قیامت خیز” قرار دیا ہے، جبکہ نئی سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کی جانب سے اجتماعی قتل عام اب بھی جاری ہے۔ رپورٹس کے مطابق 18 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد آر ایس ایف نے الفاشر پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد شہر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی کے اعلیٰ سفارتکار جوہان ویڈیفل نے صورتحال کو ’قیامت خیز‘ قرار دیا، جبکہ نئی سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ پیراملٹری فورسز کی جانب سے اجتماعی قتل عام اب بھی جاری ہے، یہ واقعات اُس کے پانچ دن بعد پیش آ رہے ہیں جب ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا۔اپریل 2023 سے سوڈانی فوج کے ساتھ جاری جنگ کے دوران آر ایس ایف نے 18 ماہ کے محاصرے کے بعد بالآخر دارفور کے اس آخری فوجی گڑھ پر قبضہ کر لیا، قبضے کے بعد سے وہاں اجتماعی قتل، جنسی تشدد، امدادی کارکنوں پر حملے، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ علاقے کا رابطہ بیرونی دنیا سے تقریباً منقطع ہے۔6 بچوں کی ماں زہرہ نامی خاتون نے سیٹلائٹ فون پر بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا محمد زندہ ہے یا مر گیا، انہوں نے تمام لڑکوں کو پکڑ لیا‘، وہ بتاتی ہیں کہ آر ایس ایف کے اہلکاروں نے ان کے 16 اور 20 سالہ بیٹوں کو پکڑ لیا تھا، تاہم ان کی التجا کے باوجود صرف چھوٹے بیٹے کو چھوڑا گیا۔ایک اور شخص آدم نے بتایا کہ اس کے 17 اور 21 سالہ بیٹوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا، اس نے بتایا کہ ’انہوں نے کہا کہ یہ فوج کے لیے لڑ رہے تھے، پھر انہوں نے مجھے لاٹھیوں سے پیٹا‘۔آر ایس ایف کے زیرِ قبضہ قصبے گرنی میں جنگجوؤں نے آدم کے کپڑوں پر خون دیکھا اور اسے بھی فوجی سمجھ کر تفتیش کی، تاہم کئی گھنٹے بعد چھوڑ دیا۔اقوامِ متحدہ کے مطابق اتوار سے اب تک 65 ہزار سے زائد لوگ الفاشر سے فرار ہو چکے ہیں، مگر دسیوں ہزار اب بھی پھنسے ہوئے ہیں، شہر میں آر ایس ایف کے حملے سے پہلے تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار افراد موجود تھے۔بین الاقوامی تنظیم ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ (ایم ایس این) نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ شدید خطرے میں ہیں اور آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لوگوں کو محفوظ علاقوں تک پہنچنے سے روکا جارہا ہے۔تنظیم کے مطابق صرف 5 ہزار افراد مغربی قصبے تویلا تک پہنچ پائے ہیں، جو الفاشر سے تقریباً 70 کلومیٹر دور ہے، ایم ایس ایف کے ایمرجنسی ڈائریکٹر مشیل اولیور لاشیریٹے نے کہا کہ ’پہنچنے والوں کی تعداد بیانات سے میل نہیں کھاتی، اور بڑے پیمانے پر مظالم کی اطلاعات بڑھ رہی ہیں‘۔کئی عینی شاہدین کے مطابق تقریباً 500 شہریوں اور فوج کے ساتھ منسلک اہلکاروں نے اتوار کے روز فرار کی کوشش کی، مگر زیادہ تر کو آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے قتل یا گرفتار کر لیا۔رپورٹس کے مطابق لوگوں کو عمر، جنس اور نسل کی بنیاد پر الگ کیا گیا، اور متعدد افراد تاوان کے بدلے حراست میں رکھے گئے ہیں، دارفور میں زیادہ تر غیر عرب نسلوں کے لوگ آباد ہیں، جو سوڈان کے غالب عرب باشندوں سے مختلف ہیں۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو سکتی ہے، جبکہ فوج کے اتحادیوں نے الزام لگایا کہ آر ایس ایف نے 2 ہزار سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا۔
