حزب اللہ نقصانات کی تلافی میں ناکام کیوں
بیروت 07 جنوری (ایجنسی) لبنان میں حزب اللہ اوراسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے اور غزہ کی حمایت میں شروع ہونے والی جنگ کے کئی ماہ بعد ہزاروں لبنانی، خاص طور پر وہ لوگ جن کے گھر جنوبی لبنان میں تباہ ہو گئے تھے، ابھی تک معاوضے کےمنتظرہیں۔معاوضے کی فائل نے حال ہی میں لبنان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں خاص طور پر “حزب اللہ کے اندرونی حلقوں” کے نام سے مشہور تنازعات کو جنم دیا ہے۔بہت سے لبنانی شہریوں نے اس فائل کو سپانسر کرنے والی جماعت کی طرف سے منصفانہ معاوضہ نہ ملنے کا خدشہ ظاہر کیا، جس کی قیادت حزب اللہ کے زیر انتظام ایک رئیل اسٹیٹ ادارہ “جہاد البناء” کرتا ہے۔اسے جنگ کے دوران بہت زیادہ انسانی اور مادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔اس تناظر میں محمد حنون جس کی عمر بیس سال ہے اس کا تعلق جنوبی نبطیہ گورنری کے قصبے شقیف ارنون میں کاسمیٹکس فروخت کرنے والا اپنا اسٹور کھو دیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوسرے ہفتے میں اسے نشانہ بنایا تھا۔ دکان کا سارا سامان جل گیا اور میرے خواب ان کے ساتھ چکنا چور ہوگئے گئے”۔اس نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ کس طرح اس نے اور اس کے خاندان نے اس اسٹور سے روزی کمائی۔ اس نے گاؤں کی سرحدوں سے باہر ایک وسیع شہرت والااسٹور بنا لیا تھا۔جہاں تک مالی معاوضے کا تعلق ہے تو نوجوان نے وضاحت کی کہ “جہاد البناء” کے ذریعے اس کا معائنہ کیا گیا ہے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ “انشاء اللہ ہر چیز کا معاوضہ دیا جائے گا مگرتا حال ادائیگی نہیں ہوسکی۔دریں اثنا صور گورنری کے المنصوری قصبے سے تعلق رکھنے والے حسین زعنی نے ایک تجارتی کمپلیکس کھو دیا جس میں سات اسٹورز تھے۔اس کے لیے وہ کرائے سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔ اس کے اوپر دو رہائشی اپارٹمنٹس تھے، جن میں سے ایک وہ اپنے خاندان کے چار افراد کے ساتھ رہتا تھا۔زعنی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ اس کے بچے اپنا گھر کھونے کے بعد عدم استحکام کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حزب اللہ کی طرف سے کرایہ اور گھر کے فرنیچر کے طور پر 12,000 کی رقم ادا کی گئی۔تاہم انہیں ابھی تک کمپلیکس کی تعمیر کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ “ہم کب تک اپنی روزی روٹی کے دوبارہ تعمیر ہونے کا انتظار کریں گے۔ ہمیں ریاست اور متعلقہ اداروں کے لیے ایک موثر اور تیز رفتار کردار کی اشد ضرورت ہے۔نبطیہ کے قصبے کفرتنبنیت کی ایک شہری امل طباجہ بھی اسی تکلیف کا سامنا کر رہی ہیں۔ اس کے خاندان کو بھی 12,000 ڈالر کی رقم موصول ہوئی تھی، لیکن اس کا خیال تھا کہ معاوضے میں سال کے آغاز میں تاخیر ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ وہ جنوبی لبنان سے جنگ کے آغاز سے ہی شمالی لبنان کے شہر عکر چلے گئےتھے۔اس کے باوجود طباجہ نے معاوضے کی ادائیگی کے بارے میں امید کا اظہار کیا۔ اس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک انہیں مکان کی تعمیر نو کی تاریخ سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔صیادون گورنری کے قصبے غازیہ سے تعلق رکھنے والی صابرین محمودی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے پوچھا کہ کس کو معاوضہ دیا جائے گا اور کیسے؟ ریاست یا بلدیات؟ سدرن کونسل یا “جہاد البنا”؟اس نے بتایا کہ کس طرح اس کے گھر کو جو اسرائیلی حملے میں متاثر ہوا اور اس کے دروازے اور کھڑکیاں سب ٹوٹ گئے۔ اگرچہ ان کے نام جہاد البنا اور سدرن کونسل دونوں کے ساتھ رجسٹرڈ تھے، لیکن ان میں سے کسی کی طرف سے ان کے خاندان کے گھر کو پہنچنے والے نقصان کا انکشاف نہیں کیا گیا۔
پھر انہوں نے “جہاد البناء” کو رسیدیں پیش کیں، جس نے جواب میں کہا کہ وہ گھر کا معائنہ کرنے یا ویڈیو کے ساتھ نقصان کی دستاویز کرنے کے بغیر انہیں رقم نہیں دے سکتے۔
