غزہ میں قحط اسرائیلی غیر انسانی پالیسیوں کا نتیجہ ہے:خلیج تعاون کونسل
تل ابیب 23 اگست (ایجنسی) غزہ کی پٹی میں انسانی بحران جاری ہے، اسی دوران آج ہفتے کو اسرائیلی فوج نے بڑے پیمانے پر حملے کی تیاری شروع کر دی ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے فوجی منصوبوں کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد حماس کو ختم کرنا اور غزہ کے رہائشیوں کو بے دخل کرنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے اسرائیلی شرائط نہ مانیں تو غزہ شہر تباہ ہو سکتا ہے۔اسرائیلی چینل 12 کے عسکری امور کے نامہ نگار کے مطابق، اسرائیلی فوج اتوار سے دس لاکھ فلسطینیوں کو غزہ شہر خالی کرنے کا حکم دے گی، اور نیا حملہ ستمبر کے وسط میں شروع ہونے کا امکان ہے۔چینل نے یہ بھی بتایا کہ مذاکراتی وفد چند دن میں واپس آسکتا ہے، اور ثالثوں سے رابطہ منقطع نہیں ہوا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز پر کوئی بنیادی اختلاف موجود نہیں۔ادھر خوراک سے متعلق عالمی ایجنسی (آئی پی سی) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ شہر میں بھوک بد ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اگر فوری جنگ بندی اور امداد کی فراہمی نہ ہوئی تو یہ پورے علاقے میں پھیل جائے گی۔ آئی پی سی نے بتایا کہ لاکھوں فلسطینی بھوک سے دوچار ہیں اور قحط اگلے مہینے تک دیر البلح اور خان یونس تک پہنچ سکتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں، جنگی کارروائیوں، بے دخلی اور مقامی پیداوار کے خاتمے نے بھوک کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ تقریباً پانچ لاکھ افراد یعنی کُل آبادی کا چوتھائی حصہ قحط کے دہانے پر ہیں اور غذائی قلت سے بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صورت حال کو “انسانی ساختہ تباہی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض حادثہ نہیں بلکہ انسانیت کی ناکامی ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل بطور قابض طاقت، خوراک اور دواؤں کی فراہمی کا پابند ہے اور موجودہ صورت حال ناقابل قبول ہے۔تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو “جھوٹ” کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں قحط نہیں ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے بھی رپورٹ پر شکوک کا اظہار کیا، مگر ساتھ ہی انسانی بحران کو “سنگین تشویش” قرار دیا اور اس کی ذمہ داری حماس اور مقامی لوٹ مار پر ڈال دی۔اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے میں 1219 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی کارروائیوں میں 62 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔امریکہ، قطر اور مصر جنگ بندی کے لیے ثالثی کر رہے ہیں، لیکن زمینی حالات مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔خلیجی ممالک نے فلسطینی عوام کے ساتھ اپنے بھرپور اور مستقل تعاون کی پالیسی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں بڑھتی ہوئی بھوک اور قحط کی کیفیت قابض اسرائیل کی غیر انسانی روش کا واضح ثبوت ہے۔خؒلیج تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل جاسم البدیوی نے کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ فوری طور پر اسرائیلی افواج پر دباؤ ڈالے تاکہ غزہ کی پٹی میں تمام سرحدی گزرگاہیں کھولی جائیں اور انسانی و امدادی سامان بنا کسی شرط کے وہاں پہنچ سکے۔انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ عالمی ادارہ برائے غذائی نگرانی (IPC) کی جانب سے غزہ میں باضابطہ طور پر قحط کے اعلان اور بھوک کی تباہ کن سطحوں تک پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی قابض افواج دانستہ طور پر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں، جو کہ غیر انسانی اور غیر قانونی عمل ہے۔جاسم البدیوی نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ خلیجی ممالک فلسطینی عوام کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے اور غزہ پر مسلط محاصرہ فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ تمام گذرگاہیں کھول کر ضروریات زندگی اور امدادی سامان کا مسلسل اور محفوظ پہنچنا یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کرنا ناگزیر ہے، انہیں نشانہ بنانے سے اجتناب کیا جائے اور مکمل طور پر عالمی قوانین، انسانی حقوق کے اصولوں اور متعلقہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کیا جائے۔
