بھوک سے بچوں سمیت 29 لوگوں کی موت
خان یونس، 23 مئی:۔ (ایجنسی) فلسطینی خاتون اسماء الارجاء اپنی بیٹی کے کمزور بازو کو پکڑ کر اپنی دو سالہ بچی کی ابھری ہوئی پسلیوں اور پھولے ہوئے پیٹ سے شرٹ ہٹا کر دکھاتی ہیں۔ لڑکی ہسپتال کے بستر پر لیٹی ہے، بھاری سانس لے رہی ہے، پھر بے قابو ہو کر روتی ہے۔ وہ اپنے بازو اپنے کندھوں کے گرد ایسے پھینکتی ہے جیسے خود کو تسلی دے رہی ہو۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مایر نام کی یہ بچی غزہ کے کسی ہسپتال میں غذائی قلت سے لڑ رہی ہو، پھر بھی یہ حالیہ 17 دن کا عرصہ سب سے طویل ہے۔ اسے سیلیئک بیماری ہے۔ یہ آٹو امیون کی خرابی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ گلوٹین نہیں کھا سکتی اور اسے خاص خوراک کی ضرورت ہے۔ لیکن 19 ماہ کی جنگ اور اسرائیل کی سخت ناکہ بندی کے بعد اس کے لیے جنگ زدہ انکلیو میں کھانے کے لیے بہت کم بچا ہے۔ اور جو بھی کھانا بچا بھی ہے وہ اسے ہضم نہیں کر پاتی۔ متاثرہ بچی کے بغل میں بیٹھی ہوئی اس کی ماں نے کہا "اسے ڈائپر، سویا دودھ اور خاص کھانے کی ضرورت ہے۔ سرحد بند ہونے کی وجہ سے یہ یہ دستیاب نہیں ہے۔ اگر یہ دستیاب ہے تو یہ اتنا مہنگا ہے کہ میری پہنچ سے باہر ہے۔" اقوام متحدہ کی چلڈرن ایجنسی کے مطابق، مایر اس سال غذائی قلت کے شکار 9,000 سے زائد بچوں میں سے ایک ہیں۔ اور فوڈ سیفٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں دسیوں ہزار کیسز سامنے آنے کی امید ہے۔ ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی بند نہ کی اور اپنی ناکہ بندی مکمل طور پر ختم نہ کی تو یہ خطہ بھکمری کا شکار ہو سکتا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ لوگ پہلے ہی بھوک سے مر رہے ہیں۔ چند دنوں کے اندر ہی اب تک بچوں سمیت 29 لوگ بھوک سے مر چکے ہیں۔ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے نمائندے نیسٹر اووموہانگی نے کہا کہ ’’(غزہ میں) جہاں بھی دیکھو، لوگ بھوکے ہیں۔۔۔ وہ سب اپنی انگلیوں سے منہ کی طرف اشارہ کر کے بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں کچھ کھانے کی ضرورت ہے۔ غزہ میں سب سے برا دور پہلے ہی آ چکا ہے۔" حالانکہ گذشتہ روز اسرائیل نے ناکہ بندی جزوی طور پر ہٹائی ہے لیکن فلسطینیوں تک بہت کم امداد پہنچ رہی ہے۔ اسرائیل نے دو ماہ سے زائد عرصے سے اس ساحلی پٹی میں تمام خوراک، ادویات اور دیگر اشیاء کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جو 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کا گھر ہے۔ اسی کے ساتھ وہ مسلسل فضائی اور زمینی حملے کر رہا ہے۔ صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینی زندہ رہنے کے لیے مکمل طور پر بیرونی امداد پر منحصر ہیں، کیونکہ اسرائیلی حملے نے علاقے میں خوراک کی پیداواری صلاحیتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ کئی ہفتوں تک غزہ میں امداد کی بحالی کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیل نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ہفتے انتہائی محدود پیمانے پر کچھ درجن ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ بھوک کے بحران کی شدت پر ایک سرکردہ بین الاقوامی اتھارٹی انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں اب سے مارچ تک غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد 71,000 ہو سکتی ہے۔ آنے والے مہینوں میں تقریباً 17,000 حاملہ اور دودھ پلانے والی شدید غذائی قلت کے لیے علاج کی ضرورت ہوگی۔ ایک خیمے میں رہنے والی نوف العرجہ کہتی ہیں کہ اس نے ایک کلو گرام لال دال کے لیے بہت زیادہ پیسے خرچ کیے ہیں۔ گھر والے اس میں بہت زیادہ پانی ڈال کر پکاتے ہیں تاکہ یہ لمبے وقت تک چل سکے، وہ نہیں جانتے کہ اس کے بعد وہ کیا کھائیں گے۔ نوف العرجہ چار بچوں کی ماں ہیں اور حالیہ دنوں میں ان کا وزن 23 کلوگرام کم ہو گیا ہے۔ کمزور اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انہیں توجہ مرکوز کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ یہ بات کرتے ہوئے بھی انہیں مسلسل چکر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ (نوف العرجہ) اور اس کی تین سالہ بیٹی دونوں غذائی قلت کی شکار ہیں۔ اسے فکر ہے کہ اس کا بچہ، جو چار ماہ قبل پیدا ہوا تھا اور اس کا وزن کم تھا، اس کا بھی وہی حال ہوگا کیوں کہ اسے دودھ پلانے میں دقت آ رہی ہے۔ " نوف العرجہ کا کہنا ہے کہ میں بچے کا کھانا ڈھونڈ رہی ہوں تاکہ میں اسے کھلا سکوں مگر یہاں کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔
