حماس نے جواب کے لیے مہلت مانگ لی
یرو شلم 15 جنوری(ایجنسی) اسرائیلی نشریاتی ادارے نے تصدیق کی ہے کہ جنوبی علاقے کی فوجی کمان نے غزہ سے بتدریج انخلا کی تیاری شروع کر دی ہے۔ کمان اب سیاسی سطح کی ہدایات کی منتظر ہے جو ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔ ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے حوالے سے از سر نو تعیناتی اور نتساریم اور فلاڈلفیا سے بتدریج انخلا کا منصوبہ منظور کر لیا ہے۔ اسی طرح اسرائیلی فوج معاہدے پر دستخط کے کچھ وقت بعد رفح کی گزر گاہ سے بھی چلی جائے گی۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے گرد ایک بفرزون قائم کیا ہے جس کی لمبائی 60 کلو میٹر اور چوڑائی 800 میٹر ہے۔ فسلطینیوں کو اس کے قریب آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتین یاہو نے اسرائیلی قیدیوں کے گھرانوں کو بتایا ہے کہ وہ تمام اسیروں کی واپسی کی خاطر طویل مدت فائر بندی کی طرف جانے کو تیار ہیں۔نیتن یاہو کے مطابق حماس نے ابھی تک مجوزہ فارمولے کا جواب نہیں دیا ہے۔ مزید یہ کہ اس وقت گردش میں تمام باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔ حماس نے جواب کے لیے چند گھنٹوں کی مہلت طلب کی ہے۔نیتن یاہو کے مطابق امریکی منتخب صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی کھیل کے اصول بنیادی طور سے تبدیل ہو جائیں گے۔ فائر بندی کی کسی بھی خلاف ورزی کا سخت جواب دیا جائے گا۔قطر، مصر اور امریکا کے ذمے داران کے علاوہ اسرائیل اور حماس کا بھی یہ کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدہ اب پہلے سے زیادہ قریب ہے۔قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ معاہدے کا مسودہ فریقین کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ حتمی تفصیلات کے سلسلے میں بات چیت جاری ہے۔البتہ حماس کے دو سینئر ذمے داران کے مطابق تنظیم ابھی تک اسرائیل کی جانب سے ان نقشوں کے دیے جانے کی منتظر ہے جو غزہ میں اسرائیلی فوج کے انخلا کے علاقوں کو واضح کریں۔دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ غزہ معاہدہ قریب آ چکا ہے۔ انھوں نے منگل کے روز مصری صدر عبد الفتاح السيسی سے ٹیلی فون پر رابطے میں مذاکرات میں پیش رفت کے حوالے سے بات چیت کی۔ دونوں صدور نے باور کرایا کہ معاہدے کے نافذ العمل ہونے کی شدید ضرورت ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون سائر نے جو روم کے دورے پر ہیں، کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی اتحادی حکومت کی اکثریت غزہ معاہدے کی حمایت کرے گی۔ اگرچہ حکومتی اتحاد میں شامل قوم پرست جماعتوں کی جانب سے معاہدے کی کھلی مخالفت سامنے آ چکی ہے۔معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل کو 100 کے قریب اسیر اور ان کی لاشیں واپس کی جائیں گی جن کو حماس نے سات اکتوبر 2023 کے حملے میں قیدی بنایا اور پھر غزہ منتقل کر دیا تھا۔ اس کے مقابل اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے واشنگٹن میں خطاب میں جنگ کے بعد غزہ کے انتظامی منصوبے پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ قابل عمل معاہدہ قبول کرنے کا معاملہ حماس پر چھوڑ دیا گیا ہے۔فائر بندی تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہونے کے باوجود منگل کے روز غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 15 فلسطینی شہید ہو گئے۔ یہ کارروائیاں دیر البلح اور رفح میں ہوئیں۔ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ ممکنہ جنگ بندی کے تناظر میں غزہ کے لیے انسانی امدادات میں اضافے کی تیاری کر رہی ہے۔ تاہم غزہ کے لیے سرحدی گزر گاہوں اور سیکورٹی کی دھندلی صورت حال ابھی تک اس چیز میں رکاوٹ ہے۔اسرائیل میں یرغمالیوں کے گھرانے اس وقت امید اور نا امیدی کی کشمکش کی صورت حال میں ہیں۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے زیر قیادت جنگجوؤں نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر اچانک بڑا حملہ کر دیا۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کے نتیجے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 سے زیادہ کو قیدی بنا لیا گیا۔اس کے بعد سے اسرائیلی فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے وحشیانہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے عہدے داران کے مطابق ان حملوں میں اب تک غزہ کی پٹی میں 46 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تاریخ بڑی حد تک جنگ بندی معاہدے کے طے پانے کیلئے آخری تاریخ شمار کی جا رہی ہے۔
