گیتا اور مہابھارت کے کورسز متعارف کرانے کا منصوبہ
نئی دہلی، 13 دسمبر:۔ (ایجنسی) پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں پہلی بار سنسکرت کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز نے کریڈٹ کورس متعارف کرایا۔یونیورسٹی مہابھارت اور بھگود گیتا کے کورسز کا بھی منصوبہ رکھتی ہے۔ تقسیم ہند 1947 کے بعد پہلی بار پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں سنسکرت زبان کی باقاعدہ تدریس کا آغاز کیا گیا ہے، جسے علمی اور ثقافتی لحاظ سے ایک تاریخی سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) نے سنسکرت سے متعلق ایک مختصر ورکشاپ کو باقاعدہ کریڈٹ کورس میں تبدیل کر دیا ہے، جو قدیم جنوبی ایشیائی ورثے کی جانب ایک نئی علمی توجہ کی علامت ہے۔ ابتدا میں یہ سنسکرت پروگرام تین ماہ پر مشتمل ایک ویک اینڈ ورکشاپ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تاہم طلبہ، محققین اور اساتذہ کی جانب سے غیر معمولی دلچسپی دیکھنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے چار کریڈٹ پر مشتمل باقاعدہ یونیورسٹی کورس کی شکل دے دی۔ اس تعلیمی اقدام کی قیادت LUMS کے گرمانی سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر علی عثمان قاسمی اور فارمن کرسچن کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہد رشید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کلاسیکی زبانیں مختلف تہذیبوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہیں اور سنسکرت محض ایک زبان نہیں بلکہ پورے خطے کا مشترکہ فکری اور ثقافتی ورثہ ہے۔ اساتذہ کے مطابق سنسکرت کے ذریعے قدیم فلسفیانہ، ادبی اور تاریخی متون تک براہِ راست رسائی ممکن ہوتی ہے، جو برصغیر کی فکری تاریخ کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس کورس کا ایک اہم مقصد پاکستان میں موجود سنسکرت کے ان مخطوطات پر تحقیقی کام کو فروغ دینا بھی ہے جو اب تک بڑی حد تک نظر انداز رہے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب یونیورسٹی میں محفوظ پام لیف (کھجور کے پتوں) پر تحریر شدہ سنسکرت کے قدیم مسودات کو علمی تحقیق کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جنہیں خطے کے نایاب علمی خزانے تصور کیا جاتا ہے۔ سنسکرت کورس کی کامیابی کے بعد LUMS مستقبل میں مہابھارت اور بھگود گیتا جیسے کلاسیکی متون پر خصوصی کورسز متعارف کرانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ طویل المدتی منصوبے کے تحت یونیورسٹی پاکستان میں سنسکرت اسٹڈیز کے ایک مضبوط علمی مرکز کی بنیاد رکھنا چاہتی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2027 تک سنسکرت کی تدریس کو ایک سالہ مکمل کورس میں توسیع دینے کا ہدف رکھا گیا ہے، جو اس زبان کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی تعلق کی ایک نئی شروعات ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف علمی تنوع کو فروغ دے گا بلکہ جنوبی ایشیا کی مشترکہ تہذیبی روایت کو سمجھنے میں بھی مددگار ہوگا۔ سنسکرت صدیوں تک برصغیر کی علمی، مذہبی اور فلسفیانہ زبان رہی ہے۔ وید، اپنشد، مہابھارت، رامائن اور بھگوت گیتا جیسے متون نے نہ صرف مذہبی فکر بلکہ سیاست، اخلاقیات اور سماجی تصورات کو بھی متاثر کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں سنسکرت کی باقاعدہ تدریس تقریباً ختم ہو گئی تھی، حالانکہ پاکستان میں اس کے ہزاروں نایاب مخطوطات موجود ہیں۔ LUMS کا یہ اقدام اس تاریخی خلا کو پُر کرنے اور خطے کے مشترکہ علمی ورثے کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
