بیجنگ۔ 29؍ اکتوبر۔ ایم این این۔چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے چوتھے پلا نم نے شی جن پنگ کے زیرِ کنٹرول فوجی قیادت میں گہرے اضطراب اور بے یقینی کی عکاسی کی ہے، خاص کر پیپلز لبریشن آرمی کے اندرونی حالات کے حوالے سے۔ رپورٹس کے مطابق، اجلاس کے دوران فوج سے تعلق رکھنے والے ارکان کی غیر حاضر رہنے کی شرح بے حد زیادہ تھی—مثال کے طور پر، 42 فوجی نمائندوں میں سے 27 کی شرکت نہیں ہوئی، یعنی تقریباً 63 فیصد۔ مزید یہ کہ، فوج کے بعض اعلیٰ افسران پہلے ہی صفایاب ہو چکے تھے یا ان کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں، جس سے فوجی قیادت میں اعتماد کے فقدان اور اندرونی انتشار کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال شی جن پنگ کی فوجی کنٹرول کو چیلنج کر سکتی ہے، اس کی گرفت کمزور نظر آ سکتی ہے، اور پارٹی و فوج کے درمیان طاقت کے توازن میں پیچیدگیاں سامنے آ رہی ہیں۔ اس طرح کے اندرونی رخنوں کے باوجود، سرکاری بیان بازی نے ’’نظم و ضبط کی بحالی‘‘ اور ’’فوجی قوت کا فروغ‘‘ کو مرکزی حیثیت دی ہے، لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ بیانیے حقیقت میں فوج کی استعدادِ کار اور قیادت کی سالمیت پر سوالیہ نشان ہیں۔ یہ واقعہ اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ شی جن پنگ نے گزشتہ برسوں میں فوجی اور پارٹی دونوں سطحوں پر بڑے قدغن کارروائیاں کی ہیں، اور ان اقدامات کا مقصد وفاداری کو مضبوط کرنا اور عسکری قیادت کو پارٹی کے تابع بنانا رہا ہے۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ اس حکمتِ عملی کے اثرات میں اضطراب اور خلل کی جھلکیاں واضح ہو رہی ہیں۔
چینی فوج میں گڑبڑ۔ شی جن پنگ کی عسکری گرفت میں شگاف
مقالات ذات صلة
