اب تک 25 ہلاکتیں، 600 سے زائد زخمی
تہران،27اپریل(ہ س)۔جنوبی ایران کے بندر عباس شہر میں رجائی بندرگاہ پر ہونے والے زبردست دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 516 تک پہنچ گئی، اس کے علاوہ مرنے والوں کی تعداد بھی 25 تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے وزیر داخلہ اسکندر مومنی کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے اور مکمل تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔دریں اثنا، ایرانی حکومت نے بتایا کہ عمارت میں متعدد کنٹینرز رکھے گئے تھے، جن میں ممکنہ طور پر کیمیکل موجود تھے جو ایک زوردار دھماکے سے پھٹ گئے۔دھماکے اور آتش زدگی کا واقعہ تہران کے جنوب میں 1000 کلومیٹر (620 میل) سے زیادہ فاصلے پر ایران کے صوبہ ہرمزگان کی اہم بندرگاہ پر پیش آیا۔ یہ دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ رہائشیوں کو اس کی آواز اور احساس 50 کلومیٹر دور تک بھی ہوا۔شہید رجائی ایران کی سب سے بڑی کمرشل ہندرگاہ ہے جو ملک کے جنوب میں آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جسے تیل کی تجارت کے لیے ایک اہم گزرگاہ سمجھا جاتا ہے۔یہ بندر عباس شہر کے مغرب میں 20 کلومیٹر دور موجود ہے اور ہرموزگان صوبے کا دارالحکومت ہے۔ ایران کی قومی آئل پروڈکشن کمپنی کا کہنا ہے کہ اس دھماکے کا ملک کی آئل ریفائنریز، فیول ٹینکس اور پائپ لائنز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حکومتی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے ہفتے کے روز ’فارس‘ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ دھماکے کی وجہ کا تعین کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اب تک دستیاب معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندرگاہ کے ایک سرے پر رکھے ہوئے متعدد کنٹینرز ممکنہ طور پر کیمیائی مواد پر مشتمل تھے جو اچانک پھٹ گئے۔جب تک آگ مکمل طور پر بجھ نہیں جاتی، اس واقعے کی وجہ اور نوعیت کے بارے میں درست اور خصوصی بیان جاری کرنا مشکل ہو گا۔جب کہ ایران کے سرکاری ٹیلی ویڑن کی رپورٹ کے مطابق آتش گیر مواد کو سنبھالنے میں لاپرواہی اس دھماکے میں ایک اہم عنصر تھی۔ جبکہ نیشنل آئل ریفائننگ اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے سے تیل کی سہولیات متاثر نہیں ہوئیں۔اس نے ایک بیان میں مزید کہا کہ "شہید رجائی پورٹ پر دھماکے اور آگ کا کمپنی سے وابستہ ریفائنریوں فیول ٹینکوں، ڈسٹری بیوشن کمپلیکس یا تیل کی پائپ لائنوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سنہ 2020 ء میں خود بندرگاہ پر موجود کمپیوٹر سائبر اٹیک کی زد میں آئے تھے، جس کی وجہ سے آبی گزرگاہوں اور اس سہولت کی طرف جانے والی سڑکوں میں نمایاں خلل پڑا تھا۔ مغربی ذرائع نے اس وقت اطلاع دی تھی کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا، جو کہ اس وقت واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایرانی سائبر حملے کے جواب میں تھا۔ غور طلب ہے کہ رجائی بندرگاہ بندر عباس کے دو حصوں میں سے ایک ہے جو ملک کی سب سے اہم بندرگاہ ہے۔ یہ جنوبی صوبہ ہرمزگان میں آبنائے ہرمز کے شمالی ساحلوں پر واقع ہے۔ یہ تقریباً 2,400 ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے اور اس میں سالانہ 70 ملین ٹن سامان کی گنجائش ہے۔ یہ بندرگاہ 15 میٹر کی گہرائی کے ساتھ 23 کناروں پر بھی مشتمل ہے، اور ایرانی بندرگاہوں میں ہونے والے کل لوڈنگ اور ان لوڈنگ آپریشنز کے 85 فیصد کے لیے ذمہ دار ہے۔ہرمزگان پورٹس اینڈ میری ٹائم ایڈمنسٹریشن کے ایک سینئر اہلکار اسماعیل مالکی زادہ نے سرکاری ٹیلی ویڑن کو بتایا، "دھماکہ شہید رجائی بندرگاہ کے عرشے کے ایک حصے میں ہوا اور ہم آگ بجھا رہے ہیں۔اس سے قبل ہرمزگان پورٹس اینڈ میری ٹائم ایڈمنسٹریشن کے عہدیدار اسماعیل مالکی زادہ نے کہا تھا کہ دھماکہ رجائی بندرگاہ کے قریب ہوا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ دھماکے کے مقام سے کالے دھوئیں کا ایک بہت بڑا غبار اور آگ کا ایک گولہ اٹھ رہا ہے۔ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے دھماکے کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صورت حال جاننے اور وجوہات کی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے اور وزیر داخلہ سکندر مومنی کو واقعے کی تحقیقات کے لیے علاقے کے دورے کے لیے بھیجا ہے۔دھماکے کی وجوہات کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں، سرکاری تصدیق جاری نہیں کی گئی ہے، فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔
