ہومInternationalپاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے دا خلہ پر بر طا...

پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے دا خلہ پر بر طا نوی پالیسی سخت

Facebook Messenger Twitter WhatsApp

برطانوی جامعات کا پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے داخلے معطل یا محدود کرنے کا فیصلہ

لندن، 5 دسمبر (یو این آئی) برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں نے ہوم آفس کی جانب سے سخت تر امیگریشن قواعد کے نفاذ اور ویزا کے غلط استعمال سے متعلق بڑھتی ہوئی تشویش کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے داخلوں کو معطل یا محدود کردیا ہے۔ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق برطانوی اخبار فنانشیل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ کم از کم 9 اعلیٰ تعلیمی اداروں نے ان دونوں ممالک کو طلبہ کے ویزوں کے لیے ‘ہائی رسک، کیٹیگری میں رکھ کر اپنے داخلہ پالیسیوں کو سخت کر دیا ہے، تاکہ بین الاقوامی درخواست گزاروں کی اسپانسرشپ کی اہلیت برقرار رکھی جا سکے۔جمعرات کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام بین الاقوامی طلبہ کی جانب سے پناہ کی درخواستوں میں اضافے کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے باعث برطانوی وزرا نے خبردار کیا تھا کہ اسٹڈی روٹ کو ‘آباد کاری کے لیے پچھلے دروازے، کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ اقدامات کرنے والی یونیورسٹیوں میں، یونیورسٹی آف چیسٹر نے ‘ویزوں کے انکار میں حالیہ اور غیر متوقع اضافے، کا حوالہ دیتے ہوئے 2026 کی خزاں تک پاکستان سے داخلے معطل کر دیے ہیں۔ یونیورسٹی آف وولورہیمپٹن پاکستان اور بنگلہ دیش، دونوں سے انڈرگریجویٹ درخواستیں قبول نہیں کر رہی، جبکہ یونیورسٹی آف ایسٹ لندن نے پاکستان سے بھرتیاں مکمل طور پر روک دی ہیں۔دیگر ادارے، جن میں سنڈر لینڈ، کوونٹری، ہرٹفورڈ شائر، آکسفورڈ بروکس، گلاسگو کیلیڈونین اور نجی ادارہ بی پی پی یونیورسٹی شامل ہیں، نے بھی انہی ‘رسک میٹیگیشن، اقدامات کے تحت دونوں ممالک سے داخلوں کو روک دیا ہے یا کم کر دیا ہے۔یہ پابندیاں اس ریگولیٹری تبدیلی کے بعد سامنے آئی ہیں، جو ستمبر میں نافذ ہوئی، جس کے تحت بین الاقوامی طلبہ کو اسپانسر کرنے والے اداروں کے لیے ویزا انکار کی زیادہ سے زیادہ قابلِ اجازت شرح 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔ فنانشیل ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی طلبہ کی ویزا درخواستوں کی انکار کی شرح بالترتیب 18 اور 22 فیصد ہے، جو نئی حد سے کہیں زیادہ ہے۔دونوں ممالک کے درخواست گزار مجموعی طور پر 23 ہزار 36 ویزا انکار میں سے نصف کے برابر ہیں جو ہوم آفس نے ستمبر 2025 تک کے سال میں درج کیے تھے۔ان دونوں ممالک سے پناہ کی درخواستوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، جن میں سے کئی ایسے طلبہ کی جانب سے تھیں، جو پہلے اسٹڈی یا ورک ویزا پر برطانیہ آئے تھے۔بین الاقوامی اعلیٰ تعلیم کے مشیر وِنچینزو رائمو نے ‘فنانشیل ٹائمز،کو بتایا کہ کریک ڈاؤن نے کم فیس لینے والی یونیورسٹیوں کے لیے ‘ایک حقیقی مخمصہ، پیدا کر دیا ہے، جو بیرونِ ملک طلبہ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ چند مسائل والے کیسز بھی سخت کردہ حدوں کے تحت اداروں کی کمپلائنس کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ان اقدامات نے تعلیمی ایجنٹوں میں بھی مایوسی پیدا کی ہے۔لاہور میں قائم ایڈوانس ایڈوائزرز کی بانی مریم عباس نے کہا کہ یہ فیصلے ‘دل توڑ دینے والے، ہیں کیوں کہ حقیقی طلبہ کی درخواستیں آخری مرحلے پر مسترد کی جا رہی ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھرتی کرنے والے ایجنٹوں کی کمزور نگرانی نے اسٹڈی روٹ کے غلط استعمال میں اضافہ کیا ہے، جسے ‘کمانے کا ذریعہ، بنا دیا گیا ہے۔یونیورسٹیز یوکے انٹرنیشنل نے کہا کہ اسپانسرشپ کے حقوق برقرار رکھنے کے لیے کچھ اداروں کو بین الاقوامی داخلوں میں تنوع لانا ہوگا، اور درخواستوں کی جانچ کو مضبوط بنانا ہوگا۔

Jadeed Bharathttps://jadeedbharat.com
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.
Exit mobile version