میں بریت کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
اسلام آباد، 28 اکتوبر (یو این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) و سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں بریت کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ کل (29 اکتوبر) کو سماعت کرے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں بریت کی درخواستوں پر گزشتہ سماعت 2 اکتوبر کو ہوئی تھی۔یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواستوں پر سماعت کی کازلسٹ منسوخ کر دی تھی۔9 اکتوبر کو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی طبیعت ناسازی کے باعث سماعت نہیں ہو سکی تھی۔ 12 ستمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں درخواست بریت مسترد کردی تھی۔16 ستمبر کو سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے احتساب عدالت کا 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں درخواست بریت مسترد کرنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ادھر، 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔7 اکتوبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کر دی تھی۔واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔