National

حج ہیٹ ویو: سینکڑوں اموات کی تصدیق

105views

حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے، جس کے لیے ہر وہ مسلمان جو جسمانی اور مالی طور پر اس قابل ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار مکۃ المکرمہ کا سفر کرے۔ حج کا موسم ہر سال اسلامی کیلنڈر کے مطابق بدلتا ہے اور اس سال یہ جون میں پڑا جو سعودی عرب کے گرم ترین مہینوں میں سے ایک ہے۔ سعودی جنرل اتھارٹی برائے شماریات کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اجتماعات میں سے ایک، اس سال حج میں 18 لاکھ سے زائد افراد شرکت کر رہے ہیں۔ ہر سال حاجیوں کی اموات کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے (پچھلے سال یہ تعداد 200 سے زیادہ تھی)، لیکن اس سال کا اجتماع خاص طور پر بلند درجہ حرارت کے درمیان منعقد کیا گیا۔

مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی حکومت نے عازمین حج کو مشورہ دیا تھاکہ درجہ حرارت 49 ڈگری سیلسیس تک پہنچنے کے بعد چند گھنٹوں کے درمیان ’شیطان کو سنگسار‘ کی رسم ادا نہ کریں۔ حج حکام نے عازمین سے کہا کہ وہ چھتری لے کر جائیں اور سخت حالات میں ’ہائیڈریٹڈ‘ رہیں جبکہ سعودی فوج نے خاص طور پر ہیٹ اسٹروک کے لیے طبی یونٹس اور 30 ریپڈ ریسپانس ٹیموں کے ساتھ 1600 سے زائد اہلکار تعینات کیے، مزید 5000 صحت اور ابتدائی طبی امداد کے رضاکاروں نے حصہ لیا۔

جون میں مکۃ المکرمہ کا اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت تقریباً 44 ڈگری سیلسیس رہتا ہے۔ لیکن اس سال عازمین حج کو غیر معمولی طور پر شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، 17 جون کو درجہ حرارت 52 ڈگری سیلسیس تک بڑھ گیا۔ سعودی حکومت کےمطابق 2700 سے زائد افرادکا ہیٹ اسٹروک کا علاج کیا گیا۔ اس سال حج کے دوران سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 500 تک پہنچ گئی ہے لیکن حقیقی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے جیسا کہ رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ 600 کے قریب مصری عازمین مکۃ المکرمہ جانے والے راستے میں شدید گرمی میں ہلاک ہو گئے۔

مختلف ممالک میں حکام کے مطابق، کم از کم 14 ملائیشیائی، 165 انڈونیشیائی، 75 اردنی، 35 پاکستانی، 49 تیونسی، 11 ایرانی اور 98 ہندوستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ حج کے دوران متعدد امریکی شہریوں کی موت ہوئی لیکن ان کی تعداد نہیں بتائی ۔ ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق، ایرانی ہلال احمر نے کہا کہ درجنوں ایرانی بھی ہیٹ اسٹروک اور دیگر حالات کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں۔

سی این این کے مطابق، اس سال حج کے دوران تازہ ترین سرکاری ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 480 ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، کیونکہ سعودی عرب اور مصر نے ابھی تک سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔ مزید برآں، حکومتیں صرف ان حاجیوں کے بارے میں جانتی ہیں جنہوں نے اپنے ملک کے کوٹے کے حصے کے طور پر رجسٹریشن کر کے مکۃ المکرمہ کا سفر کیا ہے – غیر رجسٹرڈ حاجیوں میں زیادہ اموات کا خدشہ ہے۔ 20 جون کو مصری کابینہ کے ایک بیان کے مطابق، مرنے والے مصریوں کی سرکاری تعداد 28 ہے۔ تاہم، رائٹرز اور دیگر خبر رساں ایجنسیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر یہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ 500 سے 600 مصری ہلاک ہوئے ہیں۔ مصری ایوان صدر کے مطابق وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی کی سربراہی میں کرائسس یونٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مصریوں کی لاشوں کی واپسی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے سعودی حکام کے ساتھ تیزی سے رابطہ کریں۔ مصری حکام متاثرین اور لاپتہ افراد کی درست تعداد جمع کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ تضاد غیر رجسٹرڈ حاجیوں کی بڑی تعداد سے پیدا ہوا ہے جن کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوا جنہوں نے اپنے ملک کے کوٹے کے تحت اندراج کیا اور مکۃ المکرمہ کا سفر کیا۔

ایک اندازے کے مطابق 18 لاکھ مسلمانوں کے اجتماع نے زیادہ درجہ حرارت کا مقابلہ کیا جن میں سے ہزاروں افراد کا ہیٹ اسٹروک کے لیے علاج کیا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی وزارت صحت نے راستے پر کولنگ اسٹیشنوں سمیت حفاظتی اقدامات نافذ کیے اور حجاج کرام سے چھتری استعمال کرنے اور ہائیڈریٹڈ رہنے کی تاکید کی تھی۔ اس کے باوجود، اس سال سانحہ رونما ہوا، اور اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا عازمین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مزید کچھ کیا جا سکتا تھا۔ یہ صورتحال ان غیر رجسٹرڈ عازمین کے لیے لاحق خطرات کو بھی اجاگر کرتی ہے جو اجازت نامہ حاصل نہ کرنے کے باوجود اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں، اور جنہیں سرکاری سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔

اردنی حکام کے مطابق کم از کم 68 عازمین کو ان کے اہل خانہ کی خواہش پر مکۃ المکرمہ میں سپرد خاک کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ملیشیا کے وزیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر محمد نعیم مختار نے کہا کہ زیادہ تر حاجیوں کی موت دل کی بیماری، نمونیا اور خون کے انفیکشن سے ہوئی۔ سرکاری برنامہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا مرنے والے ملک کے سرکاری حج وفد کے رکن تھے۔

ہندوستان کی وزارت خارجہ نے 21 جون کو 98 ہندوستانی شہریوں کی موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اموات قدرتی بیماری، قدرتی وجوہات، دائمی بیماری اور بڑھاپے کی وجہ سے ہوئیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ 15 جون کو، جس دن مسلمان کوہ عرفات پر جمع ہوئے تھے اور جہاں پیغمبر اسلام محمد صل الله عليه وسلم نے اپنا آخری خطبہ دیا تھا، اس دن شدید گرمی میں چھ ہندوستانی شہری ہلاک ہوئے تھے اور دیگر چار حادثات کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔

حج سعودی بادشاہ کے لیے وقار کا باعث ہے، جو اسلام کے مقدس ترین مقامات کے محافظ کے طور پر دو مقدس مساجد کے متولی یا خادم الحرمین الشریفین کا خطاب رکھتے ہیں۔ لیکن حج سعودی معیشت کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ 2015 میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد، سعودی عرب نے تین لاکھ اضافی نمازیوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے مکۃ المکرمہ میں حرم شریف کی توسیع کے لیے 21 ارب ڈالر کا منصوبہ شروع کیا۔ ایک سال بعد، اس وقت کے نائب ولی عہد اور موجودہ شاہ محمد بن سلمان نے حج کو 2030 تک سعودی معیشت کو متنوع بنانے کے منصوبے کے ایک اہم جز کے طور پر شناخت کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کی فروخت سے سعودی مملکت کو یومیہ ایک ارب ڈالر کے قریب آمدنی ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں حجاج سے حاصل ہونے والا معاشی فائدہ معمولی ہے۔ لیکن یہ غیر استعمال شدہ صلاحیت طویل مدت میں مملکت کے لیے دولت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ رائٹرز نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، حج سے ہونے والی آمدنی سالانہ اوسطاً 30 ارب ڈالر ہو سکتی ہے اور سعودیوں کے لیے ایک لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی اگر مملکت نے 10 روزہ حج کے ساتھ ساتھ سال بھر کے عمرہ کے دوران تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ عازمین کو راغب کیا۔ سعودی حکومت کا 2030 تک تین کروڑ عازمین حج کا ہدف ہے۔

Follow us on Google News