
امریکی منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق نہیں ہوگا:ٹرمپ
واشنگٹن، 11 فروری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو امریکی قبضے کے منصوبے کے تحت غزہ واپسی کا کوئی حق نہیں ہوگا، انہوں نے پیر کو جاری کردہ ایک انٹرویو کے اقتباسات میں اپنی تجویز کو ’مستقبل کے لیے رئیل اسٹیٹ کی ترقی‘ کے طور پر بیان کیا۔ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے ’فاکس نیوز‘ چینل کے بریٹ بائر کو بتایا کہ ’میں اس کا مالک ہوجاؤں گا‘ اور یہ کہ اس منصوبے کے تحت غزہ سے باہر فلسطینیوں کے رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ 6 مختلف مقامات ہوسکتے ہیں، جسے عرب دنیا اور عالمی برادری کے دیگر حکمرانوں نے مسترد کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’نہیں، وہ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ ان کے پاس بہت بہتر امکانات ہوں گے‘، جب بائر نے پوچھا کہ کیا فلسطینیوں کو انکلیو میں واپس جانے کا حق حاصل ہوگا؟ بیشتر گھروں کو اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل کی فوج نے ملبے میں تبدیل کر دیا ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ دوسرے الفاظ میں، میں ان کے لیے ایک مستقل جگہ بنانے کی بات کر رہا ہوں، کیونکہ اگر انہیں ابھی واپس آنا ہے، تو آپ کے آنے میں کئی سال لگ جائیں گے، یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔انہوں نے سب سے پہلے غزہ کے منصوبے کا انکشاف منگل کو دورہ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کیا تھا جس کے بعد فلسطینیوں کا غم و غصہ سامنے آیا تھا۔امریکی صدر نے تنازعات سے تباہ ہونے والے فلسطینیوں کو غزہ سے باہر نکالنے، مصر اور اردن کے لیے اپنے کیس پر زور دیا۔فاکس کو انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ غزہ میں رہنے والے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کے لیے ’خوبصورت کمیونٹیز‘ بنائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم 5، 6 یا بلاک 2 بناسکتے ہیں لیکن ہم محفوظ کمیونٹیز بنائیں گے، جہاں سے وہ ہیں، جہاں سے یہ تمام خطرہ ہے، اس دوران میں اس جگہ کا مالک کہلاؤں گا، اسے مستقبل کے لیے جائیداد کی ترقی کے طور پر سوچیں، یہ زمین کا ایک خوبصورت ٹکڑا ہوگا، کوئی بڑی رقم خرچ نہیں ہوگی۔‘ٹرمپ نے دنیا کو دنگ کر دیا تھا جب انہوں نے گزشتہ ہفتے یہ اعلان کیا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا، ملبے اور نہ پھٹنے والے بموں کو ہٹا کر اسے ’مشرق وسطیٰ کے رویرا‘میں تبدیل کر دے گا۔لیکن انہوں نے ابتدا میں کہا تھا کہ فلسطینیوں کو وہاں رہنے کی اجازت ’عالمی لوگوں‘ میں شامل ہونے سے مشروط ہوسکتی ہے، تاہم اس کے بعد سے یہ تجویز سخت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ وہاں نہیں رہ سکتے۔نیتن یاہو نے اتوار کو ٹرمپ کی تجویز کو ’انقلابی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی تھی، واشنگٹن سے واپسی کے بعد اپنی کابینہ کو ایک بیان میں فاتحانہ لہجے میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ، اسرائیل کے لیے بالکل مختلف، بہت بہتر وژن لے کر آئے تھے، نیتن یاہو کو مبینہ طور پر ٹرمپ کے اعلان سے کچھ دیر پہلے ہی اس منصوبے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔باقی دنیا کی طرف سے ردعمل ایک غم و غصے کا تھا، مصر، اردن، دیگر عرب ممالک اور فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔یہ تنقید صرف عرب دنیا تک ہی محدود نہیں تھی، جرمن چانسلر اولف شولز نے اس منصوبے کو ایک اسکینڈل قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی ’ناقابل قبول اور بین الاقوامی قانون کے خلاف‘ ہوگی۔ٹرمپ کے منصوبے نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 6 ہفتے کی نازک جنگ بندی میں خلل ڈالنے اور اس کے دوسرے، زیادہ مستقل مرحلے میں بڑھنے کے امکانات کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔تاہم، ٹرمپ نے اپنے اصرار کو دہرایا کہ وہ مصر اور اردن، دونوں امریکی فوجی امداد کے بڑے وصول کنندگان، کو آنے کے لیے قائل کر سکتے ہیں۔امریکی صدر نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں اردن کے ساتھ معاہدہ کر سکتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں مصر کے ساتھ معاہدہ کر سکتا ہوں، آپ جانتے ہیں، ہم انہیں سالانہ اربوں ڈالر دیتے ہیں۔‘پچھلے سال ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو ’موناکو جیسا‘ قرار دیا تھا، جب کہ ان کے داماد جیرڈ کشنر نے مشورہ دیا تھا کہ اسرائیل ’واٹر فرنٹ پراپرٹی‘ کو کھولنے کے لیے غزہ سے شہریوں کو نکال سکتا ہے۔
