
انہیں مواقع کے طور پر لیں :امریکی سفیر ایرک گارسیٹی
نئی دہلی ،17جنوری (یواین آئی):ہندوستان میں امریکہ کے سفیرایرک گارسیٹی نے آئندہ 20جنوری کو صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہندوستان اور امریکہ کے مابین پالیسی کی سطح پر کسی بڑی تبدیلی کے امکان سے انکار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے بابین رشتوں میں مزید وسعت پیداہوگی ۔مسٹر گارسیٹی نے یواین آئی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہاکہ ’’ مجھے یقین ہے کہ صدر بائیڈن ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ ہندوستان نواز صدر رہے ہیں، اور میں جانتا ہوں کہ وزیر اعظم مودی ایسے وزیر اعظم ہیں جوامریکہ سےبہت قریب ہیں ، لیکن وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور وزیر خارجہ کے لیے ان کے نامزد کردہ مارکو روبیو ، ہندوستان کے بہت حامی ہے۔ ان کے نامزد کردہ قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز دوسال قبل یوم جمہوریہ کے موقع پر ہندوستان کادورہ کرچکے ہیں ، اور اس لیے مجھے امید ہے کہ رشتے مزیدمضبوط ہو نگے ۔‘‘انھوں نے مزید کہا،’’ لیکن کچھ چیزیں بدل جائیں گی۔ امیگریشن پر توجہ مرکوز کی جائے گی، تجارت پر توجہ دی جائے گی، دفاع پر مسلسل توجہ دی جائے گی، اور شاید امریکہ اور ہندوستان کے لیے تجارت کے بارے میں بہت واضح بات چیت کا موقع ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے الفاظ کو دھمکی کے طور پر نہ لیں، انہیں مواقع کے طور پر لیں اور دیکھیں کہ کیا ہم کوئی معاہدہ کر سکتے ہیں۔‘‘ہندوستان اور امریکہ کے مابین موجودہ رشتوں سے متعلق سوال پر مسٹر گارسیٹی نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’ آپ ہمیں جانتے ہیں، ہندوستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کبھی اتنے مضبوط نہیں رہے جتنے آج ہیں ، سمندرکی تہہ سے لیکر ستاروں تک ہم خلا، دفاع، ثقافت، تعلیم کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں، ہم تجارت میں توسیع پر کام کر رہے ہیں اور نئے ریکارڈ قائم کررہے ہیں ، اب تک کے سب سے زیادہ ریکارڈ تجارت، ویزا، طلباء، فوجی مشقوں اور خلائی تعاون شعبے میں قائم ہوئے ہیں ۔ ایک نسل پہلے کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ امریکہ اورہندوستان اتنے قریب ہوں گے۔ ‘‘تجاری ،سرمایہ کاری اور اقتصادی شراکت داری کوبڑھانے کے اقدام کے بارے میں مسٹر گارسیٹی نے کہاکہ ’’ ہم نے گزشتہ دو برسوں میں ریکارڈ تجارتی سطح حاصل کی۔ میرے خیال میں اگلا کام ایک ایسا طریقہ تلاش کرنا ہے جس سے ہم دوسرے ملک کی کمپنیوں سے امریکہ اور ہندوستان میں زیادہ تیزی سے سرمایہ کاری لاسکیں۔ ہم مزید الیکٹرانکس، سیمی کنڈکٹرز، سولر پینلز، الیکٹرک گاڑیاں ایک ساتھ کیسے تیار کرسکتے ہیں؟ مثال کے طور پر، آج ہم مل کر اپنی فوجوں کے لیے ہیلی کاپٹر اور طیارے تیار کرتے ہیں۔ ہم ہندوستانی کمپنی کے ساتھ امریکہ میں ا سٹیل بنانے کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ امریکی کمپنیاں یہاں کنزیومر مینوفیکچرنگ میں ملازمتیں فراہم کرتی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ جب ہم ایک دوسرے کے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو ہم دونوں اطراف کے لیے مزید ملازمتیں پیدا کرتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم واقعی اہم ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جس میں سیمی کنڈکٹرز، ٹیلی کمیونیکیشن، کوانٹم اور مصنوعی ذہانت، اور دفاع اور خلا بھی شامل ہیں۔ اس کے لیے، فارماسیوٹیکل اور بائیوٹیک اور توانائی، یہ وہ اہم شعبے ہیں جو مستقبل کو متعین کریں گے۔ ہندوستان اپنے طور پر صرف اتنا کر سکتا ہے، امریکہ اپنے طورپر صرف اتنا کر سکتا ہے، لیکن مل کر کا م کرنے میں اس کےامکانات لامحدودہیں ۔چین کے تعلق سے سوال کرنے پر امریکی سفیر نے کہاکہ جب چین کی بات آتی ہے تو ہم چین کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، جیسا کہ ہندوستان نے حال ہی میں حاصل کیا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کے اصول صرف ایک ملک کو نہیں، بلکہ تمام ممالک کو مل کر طے کرنے چاہئیں اور ترقی کے لیے ممالک کو قرضوں میں نہیں پھنسانا چاہیے، بلکہ کفایتی طریقے سے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے انکی مدد کرنی چاہیے۔خطے میں سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے اور انسداد دہشت گردی کے تعلق سے مسٹر گارسیٹی نے کہاکہ امکریکہ انسداد دہشت گردی سے متعلق حکمت عملی کا تبادلہ کرتاہے ۔ امریکی سفیر نے کہاکہ انھیں تہور رانا کی حوالگی پر کام کرنے پر بہت فخر ہے، اور امید ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں، یا اس سال کے نصف اول میں، ممبئی 26/11 کے حملوں کے لیے انصاف کا سامنا کرنے کے لیے اسکی حوالگی ہوجائیگی ۔امریکہ کے قومی سلامتی کےمشیر جیک سولیون کے ہندوستان کے حالیہ دورے اور دونوں ملکوں کے درمیان غیر فوجی نیوکلیائی تعاون میں پیش رفت کےبارے میں پوچھے جانے پر امریکی سفیر نے کہاکہ ’’ ہمیں بہت فخر ہے کہ ہم نے تین ہندوستانی کمپنیوں کا اعلان کیا ہے جنہیں فہرست سے نکال دیا گیا ہے، اور انہیں اب ایک ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ میں نے کانگریس پارٹی کے اراکین، بی جے پی پارٹی کے اراکین سے بات کی ہے، ان دونوں کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں امریکی جوہری کمپنیوں کو یہاں کاروبار کرنے کی اجازت دینے کے لیے قانون میں تبدیلی کرنا مناسب ہے۔ ‘‘
