مولانا مدنی کے بیان پر گورنر عارف محمد خان کا رد عمل
جدید بھارت نیوز سروس
پٹنہ: بہار کے گورنر عارف محمد خان نے جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کے جہاد سے متعلق بیان پر رد عمل دیتے ہوئے دار العلوم دیوبند کو نشانہ بنایا۔ عارف محمد خان نے کہا کہ مولانا محمود مدنی کے بیان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا اور قرآن بھی وہی کہہ رہا ہے جو محمود مدنی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا لیکن انہیں کے یہاں دار العلوم دیوبند میں ان کے بیان کے برعکس جہاد کی کچھ اور تعلیم دی جا رہی ہے۔عارف محمد خان نے کہا کہ جیسا کہ مولانا محمود مدنی نے کہا اور قرآن کے بھی مطابق جہاد کا مطلب کمزوروں، غریبوں یا مظلوموں پر ظلم و کی حمایت میں کھڑا ہونا اور آواز اٹھانا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا، “ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہی حقیقی جہاد ہے۔” تاہم اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ در العلوم دیوبند کی کتاب میں جہاد کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ ’’شریعت میں جہاد دین حق کی طرف بلانے اور جو اسے قبول نہ کرے، اس سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔
عارف خان نے سنگین الزام لگایا کہ مدارس اور بہت سے اسلامی تعلیمی ادارے بچوں کو جہاد کا صحیح مفہوم نہیں سکھا رہے ہیں۔ مولانا مدنی کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے گورنر نے کہا، “مدنی صاحب ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں، انہیں دیکھنا چاہیے کہ وہاں بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے۔”’’جب تک ظلم رہے گا، تب تک جہاد ہو گا‘‘ اس سے اختلاف کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ ظلم کہیں بھی ہوگا، جو قرآنی اصطلاح ہے وہ یہ ہے کہ صرف آپ ظلم نہیں بلکہ اگر کسی کمزور یا غریب پر ظلم ہو رہا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اس کے لیے آواز اٹھائیے اور اس کی مدد کیجیے۔ لیکن مسئلہ یہاں آتا ہے کہ عوام کے بیچ میں تو وہ یہ بیان دیتے ہیں لیکن جس تعلیمی ادارے سے ان کا تعلق ہے وہاں پر وہ پڑھا کیا رہے ہیں کہ جہاد کیا ہے؟ ذرا اس پر غور کر لیجیے۔ انہیں کے یہاں پڑھائی جا رہی ایک کتاب کی سطر نقل کرتا ہوں۔ اس کے مطابق شریعت میں جہاد دین حق کی طرف بلانے اور جو اسے قبول نہ کرے، اس سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔ عارف محمد خان، گورنر، بہار۔دراصل مولانا محمود مدنی نے حال ہی میں مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں منعقدہ جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے اسلام کی مقدس اصطلاحات مثلاً جہاد کے لفظ کو ایک گالی، فساد اور تشدد کا ہم نام بنا دیا ہے۔ لو جہاد، لین جہاد، تعلیم جہاد، تھوک جہاد وغیرہ جیسے جملے استعمال کر کے مسلمانوں کی سخت دل آزاری اور ان کے مذہب کی توہین کی جا رہی ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ حکومت اور میڈیا میں بیٹھے ذمہ دار افراد بھی اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور نہ ایک کمیونٹی کی دل آزاری کی پرواہ کرتے ہیں۔ بلکہ پرواہ کیا کریں گے، یہ تو ایسا اس کمیونٹی کی دشمنی میں کرتے ہیں۔ یہ تو پرانے دور سے چلا آ رہا ہے کہ کہیں بھی دہشت گردانہ واقعہ پیش آ جائے تو اس کو جہاد کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں پر طعنے، تہمتیں اور ناحق الزام عائد کیے جاتے ہیں۔
