ہومBiharنتیش کمار نے دسویں بار وزیر اعلی کا حلف لے کر نیا...

نتیش کمار نے دسویں بار وزیر اعلی کا حلف لے کر نیا ریکارڈ قائم کیا

Facebook Messenger Twitter WhatsApp

پٹنہ، 20 نومبر (یو این آئی) نتیش کمار نے جمہوریت کی اساس کہی جانے والی سرزمین، بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جمعرات کے روز تقریباً دو دہائیوں میں دسویں مرتبہ حلف لے کر ملک کی سیاست میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے ڈھلتی عمر، تھکن اور صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باعث مقبولیت میں کمی کے اندازوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، حال ہی میں اختتام پذیر اسمبلی انتخابات میں مسٹر نتیش کمار نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ریاستی سیاست میں بدستور با اثر اور عوامی اعتماد کے حامل رہنما ہیں۔تقریباً بیس سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد، اس انتخاب میں وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے مشکل آزمائش سے گزر رہے تھے۔ نسلی امتیاز، ذات پات کی کشمکش اور سیاست میں جرائم کی وجہ سے اکثر موضوعِ بحث رہنے والی ریاست بہار میں ’سُشاسن بابو‘ کے طور پر پہچان بنانے والے نتیش کمار اپنی صاف ستھری شبیہ اور ایمانداری کے باعث اب بھی گٹھ بندھن کی سیاست کا مرکزی ستون بنے ہوئے ہیں۔حالیہ دنوں میں میڈیا سے دوری، اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو کی جانب سے انہیں ’بے ہوش وزیراعلیٰ‘ کہنے اور انتظامیہ پر بیوروکریسی کے حاوی ہونے کے الزامات کے باوجود، بہار کے ووٹروں نے ان کی قیادت میں این ڈی اے کو تاریخی مینڈیٹ دیا ہے۔ عوام نے ایک بار پھر نتیش کمار پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے۔اپنی انتخابی ریلیوں میں نتیش کمار بار بار کہتے تھے کہ ’’2005 سے پہلے کچھ تھا؟ کوئی کام کیا ہے او لوگ؟ شام کے بعد کوئی نکل سکتا تھا کیا؟
مسٹر نتیش کمار کی مسلسل پانچویں اسمبلی انتخابات میں جیت اور وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی 10ویں میعاد ہندوستانی سیاست میں ایک نادر کامیابی ہے۔ خاص طور پر ہندی بولنے والی ریاستوں میں، جہاں ہندوستانی جمہوریت میں تبدیلی کی توقع ہے۔ بہار نے ایک مرتبہ پھر نتیش کمار پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے۔اس بار این ڈی اے میں بی جے پی اور جے ڈی یو نے برابر یعنی 101-101 نشستوں پر انتخاب لڑا اور اتحاد نے دوبارہ نتیش کمار کو وزیراعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش کیا۔ اس انتخاب میں وزیر اعظم نریندر مودی اور نتیش کمار دونوں کی شبیہ کا فائدہ ملا۔ این ڈی اے نے 2010 کی طرح ایک بار پھر 200 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کبھی بہار میں بی جے پی کے بڑے بھائی کی حیثیت رکھنے والی جے ڈی یو اس بار چھوٹے شریک کی طرح دیکھی جا رہی تھی۔ انتخاب سے پہلے یہ عام تاثر تھا کہ مودی کی دیرپا مقبولیت اور بی جے پی کا قومی غلبہ ہی این ڈی اے کی اصل قوت ہے، جو نتیش کمار کی کم ہوتی مقبولیت کی تلافی کر سکتی ہے۔ مگر نتائج نے بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں کو برابر کا شراکت دار ثابت کیا۔اس انتخاب میں نتیش کمار نے خواتین ووٹروں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل کی۔ بہار کی ‘دیدیوں، نے مضبوطی سے ان کا ساتھ دیا۔ یہ بات ہمیشہ سے کہی جاتی رہی ہے کہ 2005 سے چل رہی نتیش قیادت والی این ڈی اے حکومت کی خواتین مرکز فلاحی اسکیموں نے انہیں خواتین میں خاصا مقبول بنایا ہے، لیکن اس بار اصل گیم چینجر 1.4 کروڑ سے زائد خواتین کو دیا گیا 10 ہزار روپے کا براہِ راست نقد فائدہ بنا۔ ‘دس ہزاریا۔ مستفید خواتین اور جیِوِکا دیدیوں نے این ڈی اے کی بڑی جیت کے پیچھے اصل انجن کا کام کیا۔حکومتی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ ہر برادری، ذات اور طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس بار 71.6 فیصد خواتین نے ووٹ ڈالا، جو مردوں (62.8 فیصد) سے تقریباً 9 فیصد زیادہ ہے۔ مکھیہ منتری میہلا روزگار یوجنا جیسی فلاحی کوششوں کے ذریعے خواتین ووٹروں نے نتیش کمار کی قیادت کو ایک مضبوط سہارا فراہم کیا، جس سے انہیں دیگر طبقات سے ملنے والے سیاسی دھچکوں کا اثر کم ہوا۔سال 2020 کے برخلاف، جب جے ڈی یو کی تنظیمی قوت کمزور دکھائی دے رہی تھی، اس بار پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ زیادہ مؤثر ثابت ہوا۔ دیہی سطح کے رہنماؤں اور مقامی بااثر افراد پر مشتمل روایتی تنظیمی نیٹ ورک نے بی جے پی کے ساتھ بہتر ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا۔ نتائج کے بعد یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ نتیش کمار میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اتحاد کے ووٹ کو منتقل کرا سکیں، چاہے وہ کسی بھی اتحاد میں ہوں۔ ان کے سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود ان کے علاقوں سے یہی پیغام ملا ، آپ جہاں جائیں گے، ہم بھی وہیں جائیں گے۔مخالفین کی جانب سے ان کی صحت اور انتظامی صلاحیت پر لگاتار حملوں نے بھی ان کے حامیوں کو مزید جوش کے ساتھ ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ ‘سوشاسن بابو، کے علاوہ نتیش کو ‘مسٹر کلین،بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے وزراء پر الزامات لگتے ہیں مگر نتیش کمار پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔اس انتخاب میں نتیش کمار کے لیےٹائیگر ابھی زندہ ہےکا نعرہ محض سیاسی اعلان نہیں بلکہ ان کے سیاسی وجود اور قابلِ اعتماد قیادت کا عملی ثبوت بن کر سامنے آیا۔بہار کے ضلع پٹنہ کے بختیارپور میں یکم مارچ 1951 کو ایک عام خاندان میں پیدا ہونے والے نتیش کمار کے والد، آنجہانی کوی راج رام لکھن سنگھ، مجاہد آزادی اور طبیب تھے۔ نتیش کمار نے پٹنہ کے بہار انجینئرنگ کالج میں تعلیم حاصل کی، جہاں وہ لوک نائک جے پرکاش نارائن سے متاثر ہو کر 1974 کی طلبہ تحریک میں شامل ہو گئے۔ نتیش کمار نے پہلی بار 1977 میں انتخابی سیاست میں قدم رکھا، جب پورے ملک میں کانگریس کے خلاف لہر چل رہی تھی۔ اس دور میں جنتا پارٹی مضبوط ہو چکی تھی۔ تاہم نتیش کمار انتخابی سیاست میں اچھی شروعات نہ کر سکے۔ 1977 میں انہوں نے نالندہ کے ہرنوت اسمبلی حلقے سے جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1980 کے اسمبلی انتخابات میں بھی انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بعد خاندان والوں نے انہیں سیاست چھوڑ کر نوکری کرنے کا مشورہ دیا، لیکن نتیش کمار نے ہمت نہ ہاری اور ڈٹے رہے۔

Jadeed Bharathttps://jadeedbharat.com
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.
Exit mobile version