
امریکی حملوں کا جواب دینے کے لیے تمام تر اختیارات کھلے ہیں: ایران
واشنگٹن/تہران، 22 جون (یواین آئی) ایران کے وزیر خارجہ سعید عباس عراقچی نے اتوار کے روزکہا کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے "نفرت انگیز" ہیں اور "اس کے طویل مدتی سنگین نتائج ہوں گے۔" انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے پاس جوابی کارروائی کے لیے "تمام اختیارات" موجود ہیں۔دریں اثنا، اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے کہا کہ اس نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد ایران کی جانب سے داغی جانے والی میزائلوں کا پتہ لگایا ہے۔آئی ڈی ایف نے ٹیلی گرام پر کہا، "کچھ دیر قبل ایران کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے میزائلوں کے بعد اسرائیل کے کئی علاقوں میں سائرن بجنا شروع ہو گئے۔" اسرائیلی فوج نے کہا کہ اسرائیل کے کچھ علاقوں میں فضائی حملوں کی وارننگ کا اعلان کیا گیا ہے اور رہائشیوں کو محفوظ علاقوں میں پناہ لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسرائیل ایئرپورٹ اتھارٹی نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد اسرائیل نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ملک میں امریکی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ بیان امریکہ کی جانب سے فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا۔عراقچی نے ترکیہ کے شہر استنبول میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تہران اپنی خود مختاری اور عوام کا دفاع جاری رکھے گا، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف ایران بلکہ اپنے ملک کو بھی دھوکہ دیا ہے۔ ان کے مطابق امریکی حملے اقوام متحدہ کے منشور کی صریح خلاف ورزی ہیں، اور ایران سلامتی کونسل سے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ نے سفارت کاری سے خیانت کی ہے ... وہ صرف طاقت اور دھمکی کی زبان سمجھتا ہے۔عراقچی نے مزید کہا کہ امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے ایک بڑی سرخ لکیر عبور کی ہے، اور ایران کا جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکلنے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے بتایا کہ جوہری تنصیبات میں نقصانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ایرانی فوج ہائی الرٹ پر ہے۔جب ایرانی وزیر خارجہ سے آبنائے ہرمز بند کرنے کے امکان پر سوال کیا گیا تو کہا کہ "تمام اختیارات میز پر ہیں"۔عراقچی نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اےکے بورڈ آف گورنرز سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ان حملوں کی مذمت کرے۔ انھوں نے کہا کہ ایران اپنی سلامتی، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام راستے محفوظ رکھتا ہے۔قبل ازیں عراقچی نے امریکہ اور اسرائیل پر سفارت کاری کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا اور سوشل میڈیا پر لکھا کہ "ایران مذاکرات کی میز پر واپس کیسے آئے جب کہ وہ کبھی وہاں سے گیا ہی نہیں؟"انھوں نے کہا کہ امریکہ نے ایرانی پُر امن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے منشور، بین الاقوامی قانون اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کی ہے ... اور ایران اپنی خود مختاری اور مفادات کے دفاع کے لیے اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق تمام اختیارات رکھتا ہے۔سلامتی کونسل سے ہنگامی اجلاس کی درخواست کے ساتھ ایران نے ایک باقاعدہ خط بھی جمع کرایا، جس میں امریکہ اور اسرائیل کو فردو، نطنز اور اصفہان میں پُر امن جوہری تنصیبات پر بیک وقت اور جان بوجھ کر حملوں کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ تنصیبات عالمی ایٹمی ایجنسی آئی اے ای اےکی مکمل نگرانی میں تھیں۔ خط میں کہا گیا کہ یہ حملے بلا اشتعال کیے گئے اور امریکی صدر نے ان کی فوری طور پر ذمے داری بھی قبول کی۔ایران نے خط کے اختتام پر کہا کہ یہ جارحیت اقوام متحدہ کے منشور، ایٹمی توانائی ایجنسی کے قوانین اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایران نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اس غیر قانونی اقدام پر فوری اجلاس طلب کرے، اس کی مذمت کرے، اور ذمہ داروں کو سزا سے بچنے نہ دے۔ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی حملے کے بعد سفارت کاری کی فی الحال کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، سفارت کاری کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے، لیکن فی الحال ایسا نہیں ہے۔قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق امریکی حملے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ بین الاقوامی قانون کی ناقابل معافی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرا ملک حملے کی زد میں ہے، جارحیت کا شکار ہے، اور ہمیں اپنے جائز حقِ دفاع کے تحت جواب دینا ہوگا۔قبل ازیں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جوہری تنصیاب پر امریکی حملے کے بعد ایران کا پہلا باضابطہ سرکاری ردعمل جاری کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ امریکی حملہ افسوسناک، اشتعال انگیز اور دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ وہ آج ماسکو روانہ ہوں گے، جہاں وہ کل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے، اور سنجیدہ مشاورت کریں گے۔الجزیرہ کے مطابق، انہوں نے استنبول میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ روس ایران کا دوست ہے اور ہمارے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری قائم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے مشاورت کرتے ہیں اور اپنے مؤقف کو ہم آہنگ کرتے ہیں، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ روس 2015 کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ میں کل روسی صدر سے سنجیدہ مشاورت کروں گا، اور ہم باہمی تعاون جاری رکھیں گے۔جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد ایکس پر جاری بیان میں عباس عراقچی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن امریکا نے ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، اور این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے) کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج صبح کے واقعات نہایت افسوسناک، اشتعال انگیز اور دور رس نتائج کے حامل ہیں، اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کو اس انتہائی خطرناک، قانون شکن اور مجرمانہ طرزِ عمل پر شدید تشویش ہونی چاہیے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہاکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی ان شقوں کے مطابق جو اپنے دفاع میں جائز اقدام کی اجازت دیتی ہیں، ایران اپنی خودمختاری، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام ممکنہ آپشنز محفوظ رکھتا ہے۔دریں اثنا، ایران کی وزارت خارجہ نے اپنی جوہری تنصیبات پر امریکا کے حالیہ حملوں کو بین الاقوامی قانون کی سنگین اور بے مثال خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے ذریعے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا یہ نہ بھولے کہ یہ امریکا ہی تھا جس نے ایک سفارتی عمل کے دوران اسرائیل کی جارحانہ کارروائی کی حمایت کر کے سفارت کاری سے غداری کی، اور اب ایران کے خلاف ایک خطرناک جنگ کا آغاز کیا ہے۔وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکا نہ کسی اصول کا پابند ہے اور نہ اخلاقیات کا، اور وہ ایک نسل کش اور قابض حکومت کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے کسی بھی غیرقانونی اقدام یا جرم سے گریز نہیں کرتا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، امریکا کی فوجی جارحیت اور اس سرکش حکومت کے جرائم کے خلاف پوری قوت کے ساتھ کھڑا ہونے اور ایران کی سلامتی اور قومی مفادات کے دفاع کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
