
سینکڑوں سال پرانی وقف جائدادوں کے پاس رجسٹریشن کیسے ہوگا؟عدالت عالیہ کا سوال
وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ میں سنو ائی ،حکومت نے وقت مانگا تھا؛اگلی سماعت آج پھر ہو گی
نئی دہلی، 16اپریل (یو این آئی) سپریم کورٹ نے نئے وقف قانون کے خلاف عرضداشتوں کے سلسلے میں آج تفصیلی سماعت کی اور حکومت کو اس قانون کے کچھ ضابطوں کے بارے میں سخت سوالات کئے اور اگلی سماعت کے لئے کل کا دن مقرر کیا سہ رکنی بینچ جس کی قیادت چیف جسٹس سنجیو کھنہ کر رہے تھے، نے بحث کے دوران حکومت سے کہا کہ کیا وہ دوسرے مذہبوں کے ٹرسٹوں میں بھی مسلمانوں نمائندگی دے گی۔ اس نے کہاکہ جو وقف جائدادیں سینکڑوں سال پرانی ہیں، ان کے پاس رجسٹریشن کیسے ہوگی اور اس قانون کے مختلف ضابطوں پر سوالیہ نشان قائم کیا۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ یہ قانون دستور کے مطابق ہے۔ حکومت کے وکیل سالییسٹر جنرل تشار مہتا نے کہاکہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اس قانون کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیا۔ نوے لاکھ سے زیادہ پٹیشنز موصول ہوئے اور ان کی جانچ بھی کی گئی۔ مشترکہ کمیٹی میں بھی اس پر تفصیلی بحث ہوئی اور یہ طے پایا گیا کہ یہ ملک کے آئین کے کسی بھی شق خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے اس کا مقصد وقف جائداد کا صیح طور پر استعمال ہے۔ سپریم کورٹ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کے خلاف درخواستوں پر کل یعنی جمعرات کو دوبارہ سماعت کرے گا۔ جیسے ہی سماعت شروع ہوئی، چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے فریقین سے دو نکات پر غور کرنے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کے سامنے دو سوال ہیں، پہلا - اسے کیس سننا چاہئے یا اسے ہائی کورٹ کے حوالے کرنا چاہئے اور دوسرا - وکلاء کن نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد درخواست گزاروں نے عدالت کے سامنے قانون میں موجود خامیوں کو بیان کیا۔ حکومت نے قانون کے حق میں دلائل دیے۔ عدالت نے حکومت سے ’وقف از صارف‘ کے بارے میں بھی سخت سوالات پوچھے۔ اس کے بعد مرکز نے عدالت سے کیس کی سماعت کل کرنے کی درخواست کی۔ عدالت نے حکومت کی بات مانتے ہوئے کیس کی سماعت کا وقت کل دوپہر دو بجے مقرر کیا۔ سماعت کے دوران سی جے آئی نے یہ بھی کہا کہ ایک چیز بہت پریشان کن ہے اور وہ ہے تشدد۔ یہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے اور ہم اس پر فیصلہ کریں گے۔ اس پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دباؤ بنانے کیلئے تشدد کا استعمال کیا جائے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے مختلف عرضیوں اور پٹیشن کی سماعت شروع کی۔ اس متنازعہ قانون پر سینئر وکیل کپل سبل نے مسلم تنظیموں کی طرف سے دلائل پیش کرتے ہوئے کہاکہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو ممبر نامزد کرنا دستور کے آرٹیکل اور شق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی مذہب کی وراثت میں مداخلت کرے۔ لیکن اس موقع پر چیف جسٹس کھنہ نے کہاکہ ایسا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آرٹیکل کی شق نمبر 26سیکولرازم کی عکاسی کر رہی ہے اور یہ سبھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس موقع پر کپل سبل نے کہاکہ وقف کا مقصد یہ ہے کہ کسی جائداد یا زمین کو فلاحی کاموں کے لئے وقف کرسکے۔ یہ ریاست کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عقیدت سے وابستہ ہے۔ چیف جسٹس کے علاوہ اس مقدمے کی سماعت جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وشوناتھن بھی کررہے ہیں۔ اس قانون کے خلاف عدالت عظمی میں 30سے زائد عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے وقف قانون میں ترمیم کرکے ایک مخصوص مذہبی فرقے کے ساتھ امتیازی اختیار کیا ہے۔ اس قانون کی حمایت میں بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے بھی اپیل دائر کی ہے اور کہا کہ یہ قانون دستور کے مطابق ہے اور اسے برقرار رکھا جائے۔
عرضی گزاروں کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل، راجیو دھون، ابھیشیک منو سنگھوی اور سی یو سنگھ پیش ہوئے، جبکہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے۔ درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25 اور 26 کے تحت مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اس سے قبل، سینئر وکیل کپل سبل، درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوئے، نے اپنے دلائل کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے جو کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کسی عقیدے کے لازمی اور اٹوٹ انگ میں مداخلت ہے۔ اگر کوئی وقف قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے دکھانا ہوگا کہ وہ پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہے۔ ریاست کیسے فیصلہ کرے کہ کوئی شخص مسلمان ہے یا نہیں؟ فرد کا پرسنل لاء لاگو ہوگا۔ سبل نے دلیل دی کہ کلکٹر وہ افسر ہوتا ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ جائیداد وقف ہے یا نہیں۔ اگر کوئی جھگڑا ہے تو وہ حکومت کا حصہ ہے اس لیے وہ اپنے کیس میں خود جج ہے۔ یہ بذات خود غیر آئینی ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک افسر ایسا فیصلہ نہیں لے گا، جائیداد وقف نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے صرف مسلمان ہی وقف کونسل اور بورڈ کا حصہ تھے لیکن ترمیم کے بعد اب ہندو بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے بنیادی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ کپل سبل نے جامع مسجد کا مسئلہ بھی اٹھایا۔ سی جے آئی نے کہا کہ جامع مسجد سمیت تمام قدیم یادگاروں کی حفاظت کی جائے گی۔ انہوں نے پوچھا کہ ایسے کتنے کیسز ہیں؟ اس سلسلے میں قانون آپ کے ساتھ ہے۔ تمام پرانی یادگاریں اور جامع مسجد بھی محفوظ رہیں گی۔ اس کے خلاف عرضی گزاروں میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی، ترنمول کانگریس کی لوک سبھا رکن مہوا موئترا، اداکار سے سیاست دان بنے تملگا ویٹری کزگم کے صدر وجے اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی جیسے افراد اور تنظیمیں شامل ہیں۔ درخواست گزاروں نے استدلال کیا ہے کہ یہ قانون وقف اداروں کی خود مختاری کو اس کے حق سے مجروح کرتا ہے اور مسلم اوقاف پر حکومت کے کنٹرول میں نمایاں اضافہ کرتا ہے۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علمائے ہند (الف)جمعیۃ علمائے ہند (م)، اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا، ٹی ایم سی کے رکن پارلیمان مہوا موئترا، دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) پارٹی، انڈین یونین مسلم لیگ، وائی ایس آر سی پارٹی، سمستھا کیرالہ کے ایم ایل اے ایس پی کے ایم پی ضیاءلرحمان برق۔ دہلی کے ایم ایل اے امانت اللہ خاں، مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے اللہ خان، جامع مسجد بنگلورو کے امام، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ٹی وی کے کے صدر اور تمل اداکار وجے، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس وغیرہ، درخواست گزاروں میں سے کچھ ہیں۔
راجستھان، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹر، آسام، اتراکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں نے ایکٹ کی حمایت میں مداخلت کی درخواستیں دائر کی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی ایک کیویٹ داخل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو سینا کے وکیل برون کمار سہنا نے وقف ترمیمی قانون کی حمایت میں عرضی داخل کی ہے۔
