سی بی آئی کو سپریم کورٹ کی پھٹکار: ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے درخواست واپس لی
نئی دہلی،20 ستمبر(اے یوایس)سپریم کورٹ نے جمعہ کو مغربی بنگال میں انتخابات کے بعد تشدد کے معاملات کو دوسری ریاست میں منتقل کرنے کے مطالبے پر سی بی آئی کو پھٹکار لگائی۔ سی بی آئی نے سپریم کورٹ میں ان مقدمات کو دوسری ریاستوں میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی ایجنسیکو اپنی عرضی واپس لینے کی ہدایت دی اور عرضی میں دئیے گئے بیانات پر سخت اعتراض کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ تمام عدالتوں میں مقدمات کی سماعت میں تعصب پایا جاتا ہے۔جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے سی بی آئی کی عرضی پر برہمی کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مرکزی ایجنسی نے ریاست کی پوری عدلیہ پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ عدالت نے کہا، آپ مغربی بنگال کی تمام عدالتوں کو دشمن کہہ رہے ہیں۔ ضلعی عدلیہ کے جج اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ کیسز صحیح طریقے سے نہیں چل رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ سی بی آئی نے بار بار کہا ہے کہ عدالتوں میں مخالفانہ ماحول ہے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ مرکزی ایجنسی نے مغربی بنگال کی عدالتوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا ہے۔ جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ کی سخت تنقید کے بعد ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا (اے ایس جی) ایس وی راجو نے ٹرانسفر کی درخواست واپس لے لی ہے۔جسٹس اوکا نے کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی اے ایس جی سے پوچھا، مسٹر راجو، اس میں کس طرح کی بنیادیں لی جارہی ہیں؟ مغربی بنگال کی تمام عدالتوں میں مخالفانہ ماحول ہے؟ یہ دعوے ایسے ہیں کہ عدالتیں غیر قانونی طور پر ضمانتیں دے رہے ہیں اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پوری عدلیہ مخالف ماحول میں ہے۔کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اوکا نے اے ایس جی سے کہا کہ فرض کریں کہ ہم مقدمات کو منتقل کرتے ہیں تو ہم اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ریاست کی تمام عدالتوں میں مخالفانہ ماحول ہے اور عدالتیں کام نہیں کر رہی ہیں، جو آپ کے افسران کو پسند نہیں ہو سکتا۔ ایک عدالتی افسر یا ایک خاص ریاست، لیکن یہ نہ کہیں کہ پوری عدلیہ کام نہیں کر رہی، جج، ڈسٹرکٹ جج، سول جج اور سیشن جج یہاں آ کر اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔اے ایس جی راجو نے تسلیم کیا کہ پٹیشن میں کچھ ‘ڈھیلا’ مسودہ تھا اور اس میں ترمیم کرنے پر اتفاق کیا۔ تاہم بنچ نے واضح طور پر ہدایت کی کہ درخواست کو واپس لینا ہوگا۔ آپ کو بتا دیں کہ ٹرانسفر کی درخواست گزشتہ سال دسمبر میں دائر کی گئی تھی۔ جس میں گواہوں کو دھمکانے اور انصاف کے عمل سے متعلق مبینہ خدشات کے پیش نظر مقدمات کو مغربی بنگال سے باہر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس سال فروری میں درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا۔